خواتین میں شناختی کارڈ کی عدم سہولت۔۔۔احساس پروگرام سے محرومی کا اہم سبب...!

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Iqra Hashmi

اقراء ہاشمی

معاشرے کو، معاشرے میں رہنے والے لوگوں کو پچھلے کچھ مہینوں میں جس پیچ و خم کا سامنا رہا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہم سب نے ہی اونچ نیچ دیکھے۔۔۔وقت کو ایک دم سے پلٹتےدیکھا۔۔۔زندگی کو تھمتے اور رکتےدیکھا۔ لوگوں کی چپ چاپ سی پر اسرار آنکھیں دیکھیں، جن میں نمی کے بیچ کئی فکریں چھپی دیکھیں۔۔۔بھوک کی رزق کی تنگی دیکھی۔۔۔

لوگوں کی پھیلے ہاتھ اور ضمیر پہ پڑا پیر دیکھا۔ غرض جو کبھی نہ سوچا نہ کبھی چاہا وہ سب کچھ پچھلے گزرے چند مہینوں میں دیکھا۔ زندگی پہ بھروسہ مانو ڈگمگا گیا اور موت کو آس پاس چلتے دیکھا۔
لوگوں کو اپنوں کی موت پہ چھپ کے روتا دیکھا۔۔۔بغیر جنازے کے رش کی میتیں دفن ہوتے دیکھیں۔ جو غم پہلے مل کے بانٹا کرتے تھے اب دوری کے باعث خود میں انسان کو پیتے دیکھا۔

(جاری ہے)

فیکٹریاں بند ہوگئیں۔۔۔کاروبار ٹھپ پڑ گئے۔۔ہر طرف سناٹا گونجنے لگا۔۔۔خالی جیب لوگ بھوکے بچوں کی طرف تڑپتے دیکھتے تھے۔ لیکن ہم سب ساتھ تھے، دور تھے مگر نیکیوں کی نیت نے جب سر اٹھایا تو ہر کوئی تشکر کی طرف بڑھنے لگا۔ حل تو سب چاہتے تھے مگر مسائل کا ایک رش تھا بہت بے ہنگم رش، جس سے نکل کر کچھ لوگ ہی باہر آپائے باقی ان میں پھنس کر رہ گئے۔


دیہاڑی دار اور ضروت مند طبقوں کی مدد کے لئے حکومت نے بھی قدم آگے بڑھائے اور اپریل میں احساس راشن پروگرام لانچ کیا جس کے ذریعے وہ راشن کی مد میں مہینہ 20000 فی گھرانہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، اور اس پروگرام کے ذریعے انہوں نے 12 ملین گھرانوں کی مدد بھی کی لیکن اس پروگرام کے لانچ ہونے کے بعد خواتین کے حوالے سے ایک بہت اہم مسئلہ سامنے آیا۔


خواتین، خاص طور پر وہ خواتین جن کے گھروں میں مرد حضرات نہیں تھے یا وہ اپنے گھر والوں کا اکیلا سہارا تھیں چاہ کر بھی احساس پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے پاس شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے۔ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین مردوں کے مقابلے میں شناختی کارڈ بنوانے میں پیچھے ہیں یا شاید اسے اتنا اہم سمجھا ہی نہیں جاتا۔


آئی ایف ای ایس (IFES)کی تحقیق کے مطابق مردوں کے مقابلے میں پندرہ فیصد خواتین شناختی کارڈ بنوانے میں پیچھے ہیں اور اگر سندھ کی بات کی جائے تو 2018 الیکشن کے وقت کے سروے کے مطابق ۲۲ ملین خواتین ایسی ہیں جو آج بھی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔
پہلے تو شاید کبھی یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں لگا مگر کورونا کے دوران جب خواتین کو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث مشکالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اس مسئلہ کو اہم جانا اور اس پر بات کرنا شروع کی۔

اصل میں ان میں ان خواتین کا شمار زیادہ ہوتا ہے جن کا تعلق اندرون سے ہو یا جنہوں نے اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی ہو اور اگر سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہی اصل حقدار بھی تھے لیکن بہت سی خواتین احساس پروگرام کا حصہ بس اسی لئے نہیں بن پائیں اور انہوں نے مزید کڑا وقت دیکھا۔
اب ہمیں چاہیے کہ ہم ان سارے موضوعات کو اہمیت دیں جو دکھنے میں شاید اتنا اہم نہ لگتا ہو لیکن اس سے پیش آنے والے مسائل بڑے ہوں، ہم سب کو مل کر ان کی نشاندھی بھی کرنی چاہئے اور لوگوں کی توجہ اس طرف مقبول کرانی چاہئے تا کہ آگے آنے والے وقت میں ہماری غیر ذمہ داری سے ہمیں کوئی ناقابلِ تلافی نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :