
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- اقراء ہاشمی
- کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن۔۔۔خواتین میں نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ!!
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن۔۔۔خواتین میں نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ!!
منگل 8 ستمبر 2020

اقراء ہاشمی
کورونا وائرس سے بے شمار مسائل نے جنم لیا، انسانیت کو خطرہ تو لاحق تھا ہی، مزدوروں کو روزی کی فکر بھی تھی لیکن ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جن کے لیے ضروری کاموں سے گھروں سے نکلنا بھی مسئلہ ہوگیا تھا۔
(جاری ہے)
ایک مسئلہ ایسا ہے جو عام طور پر بھی اہم ہے لیکن کرونا اور اس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث اس مسئلہ نے مزید زور پکڑا ہے، مگر شائد ہی اس پر کسی نے بات کی ہو اور وہ ہے موبیلائیزیشن یعنی نقل و حرکت کا مسئلہ!
خواتین کے لئے ویسے ہے عام دنوں میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، کراچی میں جہاں سواریاں کم ہیں وہاں خواتین کا حصہ ویسے ہی محدود ہے۔ کورونا کے باعث جب شہر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہوئی تو خواتین کے لئے نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ کے طور پر سامنے آیا، سڑکیں خالی سنسان ہی ہوتی تھیں اور اگر آپ کو نکلنے میں دیر ہوگئی تو آپ خالی سڑک پر گھنٹوں کھڑے رہتے تھے آپ کو کوئی راہ نہیں ملی۔
اس سلسے میں میری ایک خاتون جن کا نام نعیمہ ہے ان سے بات ہوئی۔ نعیمہ ایک بہت ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنے دو بیٹوں کی اکیلی پرورش کر رہی ہیں اور اس وجہ سے وہ ایک دوائیوں کی کمپنی میں پیکنگ کا کام کرتی ہیں، اور کورونا میں دوائی بنانے والی ساری کمپنیاں کھلی تھیں جس کی وجہ سے انہیں روز دفتر جانا ہوتا تھا۔ کورونا سے پہلے تو وہ چنگچی اور بس سے سفر کیا کرتی تھیں لیکن لاک ڈاؤن نے انہیں بہت ٹف ٹائم دیا۔ نعیمہ کا کہنا تھا کہ روز ان کو کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا، دفتر نے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دے تو دی تھی لیکن کچی آبادی میں رہنے کی وجہ سے وہ ان کے گھر تک نہیں آتے تھے جس کی وجہ سے انہیں روز گھنٹوں پیدل سفر طے کرنا پڑتا تھا، لیکن اپنے بچوں کی خاطر وہ ہنسی خوشی سب کچھ سہہ رہی تھیں اور ابھی بھی نہ جانے کیا کچھ سہتی ہوں گی۔
یہ تو بس ایک چھوٹی سی مثال ہے ایسے بےشمار مثالیں ہمارے اردگرد بھری پڑی ہیں، جو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا طبقہ ہے انہی بھی دیکھیں تو کئی ایسی داستانیں ملیں گی، جو مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو محنت کش طبقہ ہے وہ سب ہی اپنے آپ میں خود ہی ایک کہانی ہیں۔۔۔جنہیں اگر انسان چاہے بھی تو درج نہیں کر سکتا، بس خاموشی سے نم آنکھوں سے دیکھے چلے جاتا ہے۔
یہ پورا ایک سلسلہ ہے جو چلتے چلے جاتا ہے۔۔۔اور ہم بس چپ چاپ سہتے چکے جاتے ہیں اور کسی کے پاس نہ ہمت ہے اور نہ ہی وقت کہ ایک لفظِ شکوہ کہیں لکھ سکے، کہیں کہہ سکے ۔۔۔بس سب یہی سوچتے ہیں، یہی روایت ہے۔۔۔۔یہی تو ہوتا آیا۔۔۔سب کچھ عام ہی ہے بس۔۔۔نہ ہی کوئی پریشانی نئی ہے نہ ہی کوئی کہانی۔۔۔جب تک کوئی مرتا نہیں کہانی کہاں داستانیں بنتی ہیں۔۔۔ہم تو بس کٹھ پتلی ہیں۔۔۔جس کے ٹوٹنے کا انتظار معاشرے کی ہر دوسری آنکھ کر رہی ہے۔۔۔!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اقراء ہاشمی کے کالمز
-
خواتین میں شناختی کارڈ کی عدم سہولت۔۔۔احساس پروگرام سے محرومی کا اہم سبب...!
ہفتہ 12 ستمبر 2020
-
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن۔۔۔خواتین میں نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ!!
منگل 8 ستمبر 2020
-
احساس کی قدروں سے جڑا انسانیت کا رشتہ
جمعہ 4 ستمبر 2020
-
ڈاکٹر نائلہ۔۔۔۔پر نور زندگی کا روشن فرشتہ
بدھ 2 ستمبر 2020
-
لاک ڈاؤن اور خواتین میں بڑھتی تشدد کی شرح
بدھ 19 اگست 2020
اقراء ہاشمی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.