کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن۔۔۔خواتین میں نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ!!

منگل 8 ستمبر 2020

Iqra Hashmi

اقراء ہاشمی

پاکستانی معاشرے میں اگر خواتین اور خواتین کی آزادی و حقوق کی بات کی جائے تو بہت سی چیزیں نظروں میں گھوم جاتی ہیں۔۔۔بہت سے مسائل آشکار ہوتے ہیں۔۔۔سوالیہ نشان تو بےشمار مل جاتے ہیں لیکن کہیں کوئی فل اسٹاپ نہیں ملتا۔ کورونا وائرس سے ملک و دنیا سب متاثر ہوئے، جہاں معاشرتی اور معاشی دونوں ہی نظام کو بڑا نقصان پہنچا۔ انسانوں کی جان کو خطرہ تو لاحق تھا۔

۔۔لاکھوں کی تعداد میں زندگیاں موت سے جا ملیں لیکن جو زندگی تھے۔۔۔اور جنہیں ابھی مزید جینا تھا ان کے لئے زندگی گزارنا۔۔۔دن کانٹا دوبھر ہوگیا تھا۔
 کورونا وائرس سے بے شمار مسائل نے جنم لیا، انسانیت کو خطرہ تو لاحق تھا ہی، مزدوروں کو روزی کی فکر بھی تھی لیکن ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جن کے لیے ضروری کاموں سے گھروں سے نکلنا بھی مسئلہ ہوگیا تھا۔

(جاری ہے)

جی ہاں۔۔۔ میں خواتیں طبقے کی بات کر رہی ہوں۔۔۔ایک ایسا خواتین طبقہ جو اکیلی مائیں ہے اپنے گھروں کی اکیلی کمانے والی ہیں جن کے لئے دفتر جانا روٹی کمانا اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی دہاڑی دار مزدور کا۔ عام طور پر ہی پاکستان میں آزادی پسند خواتین طبقہ ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے، بلکہ گھروں میں قید خواتین بھی اپنی سانسوں کے لئے محتاج ہی رہی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک خاتون جذباتی، جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، تقریباً اسی لاکھ خواتین ہر سال کسی نا کسی طرح کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور ان سب کے باوجود جو باہمت طبقہ اپنے لئے نکلتا ہے ان کو معاشرہ بہت طریقوں سے استحصال کرنے کو کوشاں رہتا ہے۔
     ایک مسئلہ ایسا ہے جو عام طور پر بھی اہم ہے لیکن کرونا اور اس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث اس مسئلہ نے مزید زور پکڑا ہے، مگر شائد ہی اس پر کسی نے بات کی ہو اور وہ ہے موبیلائیزیشن یعنی نقل و حرکت کا مسئلہ!
  خواتین کے لئے ویسے ہے عام دنوں میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، کراچی میں جہاں سواریاں کم ہیں وہاں خواتین کا حصہ ویسے ہی محدود ہے۔

کورونا کے باعث جب شہر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہوئی تو خواتین کے لئے نقل و حرکت ایک اہم مسئلہ کے طور پر سامنے آیا، سڑکیں خالی سنسان ہی ہوتی تھیں اور اگر آپ کو نکلنے میں دیر ہوگئی تو آپ خالی سڑک پر گھنٹوں کھڑے رہتے تھے آپ کو کوئی راہ نہیں ملی۔
اس سلسے میں میری ایک خاتون جن کا نام نعیمہ ہے ان سے بات ہوئی۔ نعیمہ ایک بہت ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنے دو بیٹوں کی اکیلی پرورش کر رہی ہیں اور اس وجہ سے وہ ایک دوائیوں کی کمپنی میں پیکنگ کا کام کرتی ہیں، اور کورونا میں دوائی بنانے والی ساری کمپنیاں کھلی تھیں جس کی وجہ سے انہیں روز دفتر جانا ہوتا تھا۔

کورونا سے پہلے تو وہ چنگچی اور بس سے سفر کیا کرتی تھیں لیکن لاک ڈاؤن نے انہیں بہت ٹف ٹائم دیا۔ نعیمہ کا کہنا تھا کہ روز ان کو کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا، دفتر نے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دے تو دی تھی لیکن کچی آبادی میں رہنے کی وجہ سے وہ ان کے گھر تک نہیں آتے تھے جس کی وجہ سے انہیں روز گھنٹوں پیدل سفر طے کرنا پڑتا تھا، لیکن اپنے بچوں کی خاطر وہ ہنسی خوشی سب کچھ سہہ رہی تھیں اور ابھی بھی نہ جانے کیا کچھ سہتی ہوں گی۔


یہ تو بس ایک چھوٹی سی مثال ہے ایسے بےشمار مثالیں ہمارے اردگرد بھری پڑی ہیں، جو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا طبقہ ہے انہی بھی دیکھیں تو کئی ایسی داستانیں ملیں گی، جو مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو محنت کش طبقہ ہے وہ سب ہی اپنے آپ میں خود ہی ایک کہانی ہیں۔۔۔جنہیں اگر انسان چاہے بھی تو درج نہیں کر سکتا، بس خاموشی سے نم آنکھوں سے دیکھے چلے جاتا ہے۔


یہ پورا ایک سلسلہ ہے جو چلتے چلے جاتا ہے۔۔۔اور ہم بس چپ چاپ سہتے چکے جاتے ہیں اور کسی کے پاس نہ ہمت ہے اور نہ ہی وقت کہ ایک لفظِ شکوہ کہیں لکھ سکے، کہیں کہہ سکے ۔۔۔بس سب یہی سوچتے ہیں، یہی روایت ہے۔۔۔۔یہی تو ہوتا آیا۔۔۔سب کچھ عام ہی ہے بس۔۔۔نہ ہی کوئی پریشانی نئی ہے نہ ہی کوئی کہانی۔۔۔جب تک کوئی مرتا نہیں کہانی کہاں داستانیں بنتی ہیں۔۔۔ہم تو بس کٹھ پتلی ہیں۔۔۔جس کے ٹوٹنے کا انتظار معاشرے کی ہر دوسری آنکھ کر رہی ہے۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :