ڈاکٹر نائلہ۔۔۔۔پر نور زندگی کا روشن فرشتہ

بدھ 2 ستمبر 2020

Iqra Hashmi

اقراء ہاشمی

سال 2020 کی شروعات ہی کچھ اس طرح ہوئی کہ دنیا چکرا کر رہ گئی۔۔۔وبا کی ایک ایسی ہوا چلی کہ اسکولوں کو تالے تک گئے۔۔۔شادیاں ملتوی کردی گئیں۔۔۔فاصلہ برقرار رکھنے کو ترجیح دی گئی۔۔۔فیکٹریوں میں تالے لگ گئے۔۔۔کئی سالوں سے کچھ لوگوں نے مکہ مدینہ دیکھنے کی خواہش میں پیسے جوڑے اور جب جانے کا وقت قریب ہوا تو ہوائی پروازیں بھی اپنی جگہ جم سی گئیں۔

۔۔۔ہجوم کو خطرے کی گھنٹی کہا جانے لگا اور اسپتالوں میں جگہ ختم ہوگئی۔۔۔ ساری دنیا نے ایک ایسا وقت دیکھا جس کا تصور ہم میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔۔۔بچے بوڑھے۔۔۔جوان سب گھروں میں مقید ہوگئے اور زندگی کا ایک نیا دور دیکھا۔
ایک ایسا دور دیکھا جہاں ایک طبقہ بھوک کی فکر لئے ہوئے تھا جبکہ ایک بخوشی گھر میں بند تھے بس انہیں وبا سے بچنے کی فکر تھی۔

(جاری ہے)

۔۔معاشی بحران کا ایک بہتا بہاؤ تھا جو دنیا میں چھوٹی ریاستوں سے لے کر بڑی ریاستوں  تک سب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا اور انسان بس بے بس سا تماشا دیکھ رہا تھا۔ کوئی راشن دے رہا تھا کوئی لے رہا تھا۔۔۔کوئی چپ تھا تو کسی کی چیخ و پکار کانوں میں گونج رہی تھی غرض بہت سے مسائل نے ساتھ ہی گھیر لیا گھا۔۔۔لوگ اسپتال جانے سے گھبرانے لگے، خوف کھانے لگے تھے اور ان سب میں سب سے زیادہ متاثر حاملہ خواتین ہوئیں۔

۔۔او پی ڈیز بند ہوگئیں اور جو خواتین حاملہ تھیں پریشانی کا حل نہیں ڈھونڈ پارہی تھیں۔ ایک ایسی جنگ تھی جو سب نے مل کے لڑنی تھی اور کچھ جیت گئے اور کچھ زندگی کی بازی ہار گئے۔
اس سب میں خلق کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں نے اپنے جان کی پرواہ کئے بغیر اپنا اپنا حصہ ڈالا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب یہ جنگ جیتنے کے قریب کھڑے ہیں۔ ایسے ہی ایک فرنٹ لائن سپاہی کا تذکرہ میں بھی کرنا چاہوں گی جو صنفِ نازک ہیں مگر بہادری اور خدمتِ خلق کا جذبہ ان میں کسی فوجی سے  کم نہیں۔


گذدرآباد کے چھوٹے سے علاقے کی ایک رہائشی حاملہ خاتون جب بچے کی پیدائش کے مرحلے سے گزر رہی تھیں اور 5 بجے کے بعد شہر میں مکمل لاک ڈاؤن ہوچکا تھا۔ سڑکوں پہ سوائے نگران کے اور کوئی نہیں تھا۔۔۔گھر میں کوئی گاڑی نہیں تھی کہ انہیں بروقت اسپتال پہنچا دیا جاتا اور باہر جب نکلے تو کوئی سواری میسر نہ آئی۔۔۔ان حاملہ خاتون(نسیمہ) نے خود چل کر تھوڑا سفر طے کیا اور جب کوئی سبب نہیں بن پایا تو انہیں اپنے ایک جاننے والے کے گھر بٹھا دیا گیا۔

۔۔علاقے کی دائی نے بہت کوششیں کیں کہ کسی طرح بچے کی پیدائش گھر میں ہی ہوجائے مگر خاتون کی حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔۔۔پھر کسی نے انہیں ایک ڈاکٹر کا بتایا جو قریب ہی رہائش پذیر تھیں۔۔۔پھر انہیں جا کر جب صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو وہ بہت پریشان ہوئیں اور گھر میں جتنی دوائیاں اور انجکشن وغیرہ موجود تھے سب کچھ سمیٹ کر ان کے ساتھ چل نکلیں۔

۔۔بغیر اپنی جان کی پرواہ کئے اور اللّٰہ کی مدد سے ان کی محنت رنگ لے آئی اور خاتون نے ایک  پیاری سی بچی کو جنم دیا۔۔۔ڈاکٹر نائلہ بھی صورتحال کے سنبھل جانے پر بہت خوش تھیں اور ان سب کو مبارکباد دے کر بغیر کسی معاوضے کے اپنے گھر کی راہ لی۔۔۔وہ حاملہ (نسیمہ) خاتون آج بھی انہیں دعائیں دیتیں نہیں تھکتیں اور ان کے گھر والے بھی ڈاکٹر نائلہ کو فرشتہ ہی کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے چھپ کر لوگوں کی اس طرح مدد کی کہ تشکر سے لوگوں کی آنکھیں نم ہوگئیں اور دل تسکین پا گیا۔
دنیا میں بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جو دوسروں کے کام آنے کی نیت رکھتے ہیں اور کرونا کے دور میں ہم نے انسانیت کی ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں اور اب سمجھ آتا ہے کہ اس زندگی کے اصل ہیرو تو یہی لوگ ہیں جو لوگوں کے اس وقت کام آئے جب انہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، ناصرف کام آئے بلکہ ان کا بوجھ بھی بانٹا۔

۔۔پوری قوم ایک جگہ اکھٹی تھی اور جڑی رہی۔۔۔بے شک ہم نے تاریخ کا بہت برا دور دیکھا لیکن اسی برے دور نے ہمیں وہ کچھ سکھایا جو ہم پچھلی ساری زندگی نہیں سیکھ پائے۔۔!!
ہے وبا کا دور تو اب بس ختم شد
ہونے نہ دیں گے خدمتِ خلق تمام شد !!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :