ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

جمعہ 9 اکتوبر 2020

Iqra Yousaf Jami

اقراء یوسف جامی

علم وادب اور قلم و قرطاس کے رکھوالے ہر دور کی ضرورت رہے ہیں اور قدرت ہمیشہ ناگزیر حالات میں اس ضرورت کو پورا کرتی آئی ہے۔ فیض احمد فیض صاحب نے یہ نظم جب کہی کہ
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
انہوں نے اپنے حالات اور واقعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہی ہوگی۔

اس نظم کے پہلے مصرعے کو بہت سے مصنفین اور کالم نگاروں نے اپنی تصنیف کی زینت بنایا، ٹی وی پروگرامز کا ٹائیٹل بھی رہا مگر اس اک مصرعے ہمیشہ ظلم اور غاصبانہ رویے کے بعد احتجاج کرتے ہوئے اپنایا گیا اور اس کا نعرہ بنا کر بلند کیا گیا۔

(جاری ہے)

کسی صحافی کی گرفتاری پر، اخبار و ٹی وی چینل کی بندش پر،المختصر، ہر مرتبہ جب جب اظہارِ رائے پر پابندی کا اطلاق ہوا ، تب تب ''ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے''کا نعرہ لگایا گیا اور تاریخ و حقائق گواہ ہیں کہ یہ نعرہ ہمیشہ انفرادی طور پر اپنے مفاد اور غرض کے لئے لگایا گیا۔

کچھ دن پہلے یہ ہی مصرعہ، سوشل میڈیا پر اک طلبہ تنظیم کے آفیشل پیج پر نظر سے گزرا ، حیرت ہوئی اور بات تھی بھی حیرت کی کہ کیسے اک طلبہ تنظیم، دہائیوں سے ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے استعمال ہونے مصرعے کو اپنے یومِ تاسیس کا عنوان بنا کر نہ صرف اپنے آہنی عزم اور مستقل مزاجی کا پتا دے رہی ہے بلکہ نوجوان طلبہ کو دعوتِ حفاظتِ حقوق دے رہی ہے.
مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ 6اکتوبر کو اپنا 26واں یومِ تاسیس منا رہی ہے۔

اور جیسا کہ میں بیان کر چکی اس یومِ تاسیس میں جس بات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ اس یومِ تاسیس کی مہم کا عنوان تھا۔
کیونکہ یہاں پرورشِ لوح و قلم احتجاج نہیں، عزم ہے،
بغاوت نہیں بلکہ محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے،
اور اپنے حقوق کی لڑائی نہیں بلکہ حقوق سے آشنائی اور اس کی حفاظت ہے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کسی کی برائی بیان کرنا بڑائی سمجھا جاتا ہے اور تعریف کرنے والا متاثر کنندگان میں شامل سمجھا جاتا ہے۔

آئیے آج اس روایت کو توڑتے ہیں اور نوجوان طلبہ اس پرعزم تحریک کے چند اک پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اور یقینا یہ تعریف و تشریح ہماری طرف سے اِس طلبہ تنظیم کی خدمات کے لئے مبارک باد ہوگی۔
مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کا قیام 6اکتوبر1994کو عمل میں لایا گیا۔اس کے بانی ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کسی اک پہلو سے بھی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور میں یہ سمجھتی ہوں تحریکِ منہاج القرآن اور اس کے ذیلی فورمز کے قیام، تصنیفات اور خطبات میں سے ان کے تمام ادارے میں سے کسی اک فورم کو چننا ہو جو ان کی فکری،نظریاتی اور تربیتی منہج پر پورا اترتا ہو تو وہ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ ہے۔

اور یہ اتنا بڑا جملہ کہنے کی جسارت میں اس لیئے کر رہی ہوں کہ میں جانتی ہوں کہ نوجوان، اور پھر طلبہ ہی ہیں جو کسی بھی معاشرے کا مسقبل سنوار اور بگاڑ سکتے ہیں، اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے طلبہ کے فورم اس انتہا پسندانہ دور میں جو اعتدال کی فکر دی ہے یہ ہی اس طلبہ جماعت کی انفرادیت ہے۔ آج کے ا س دور میں جہاں یا تو قدامت پسندی سر اٹھائے کھڑی ہے یا جدت پسندی اور لادینیت اس دور میں ''Traditional Rationalist'' کی فکر نوجوانوں کے دل و دماغ میں پیوست کرنا اور ادراک کی اس منزل تک پہنچا دینا کہ یہ نوجوان طلبہ اس فکر کو عملی جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے مثال پیش کر سکیں کہ اپنی جڑوں سے ، روایتوں سے ، اور قدیم علوم سے تعلق ہی آج کے جدید دور میں معتدل راہ کی فراہمی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

نوجوان طلبہ کو امتحانات کی نمبر گیمز سے نکال کر کردار میں خودی کے اوصاف پیدا کرنا، خالصتا کسی دنیا دار تحریک کے بس کی بات نہیں یہ فریضہ ''Trdaditional Rationalist'' ہی ادا کر سکتے ہیں اور یقین کیجئے پچھلے چھبیس سالوں میں یہ کام مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتی آرہی ہے۔ اس موومنٹ کی چھبیس سال کی سرگرمیوں کا احاطہ کرنا اک کالم کے بس کی بات تو نہیں لیکن اگر ہم پچھلے اک سال کی سرگرمیوں پر نظر دوڑائیں تو اس طلبہ تنظیم کے تحرک کا عروج دکھائی دیتا ہے۔

2019 کا اختتام اور دسمبر کا آغاز اک جاندار حقوقِ طلبہ کنونشن سے ہوا جو ملکی تاریخ اور طلبہ تنظیموں کے تاریخ کا اک انفرادی اور مثبت واقعہ تھا جس میں پاکستان بھر کے طلبہ اور چھوٹی چھوٹی سیاسی تنظیموں نے قذافی اسٹیڈیم میں اکھٹے ہو کر اپنے بنیادی اور آئینی حقوق کا مطالبہ کیا،اور طلبہ کا ایسا پرامن، منظم اور باشعور اجتماع شاید ہی فلک نے اس دھرتی پر دیکھا ہو کہ جس میں نوجوان جنگ اور خون خرابے کی بجائے عقل و دانش اور حکمت سے شعور کی شمعیں روشن کرتے ہوئے اپنے حقوق کے مطالبات کوسامنے بھی رکھ رہے تھے اور ریاست و قوم کی سلامتی اور خود مختاری کا عزم بھی کر رہے تھے۔

یہ اجتماع اتنا منظم اور ہمہ گیر تھا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ تھا،مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے سوشل میڈیا ہیڈز سید فراز ہاشمی اور ہاجرہ جاوید نے اپنی ٹیمز کے ہمراہ جس منظم اور حکمتانہ انداز میں یہ پورا ایونٹ دنیا بھر کے طلبہ تک پہنچایا اس کی نظیر کم از کم کسی طلبہ تنظیم کی تاریخ میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔دو ماہ بعد،یعنی فروری2020میں ''Students Leaders Summit''کا انعقاد کیا گیا۔

اس طرح کے سٹوڈنٹس لیڈرز سمٹ، مختلف آرگنائزیشنز اور موٹیویشنل اسپیکرز کی جانب سے منعقد ہوتے آئیں ہیں، مگر ایک طلبہ تنظیم جس کی مرکزی کیبینیٹ بھی نوجوان طلبہ پر ہی مشتمل ہے اس کی جانب سے اس طرح کا سمٹ منعقد ہونا نا صرف قابلِ تحسین عمل تھا بلکہ قابلِ تقلید بھی ۔
کورونا، کورونا کے باعث ہونے والے لاک ڈاون، تعلیمی ادارے بند، اور ہر کوئی اپنے اپنے گھروں میں محصور، اور اِن حالات میں جب سب کی مصروفیات فقط Netflixتک محدود تھیں تب مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی ٹریننگ کونسل نے ایسے ایسے با مقصد اور مثبت ٹریننگ پروگرام،ز کا اجراء کیا کہ ان کی فکری،نظریاتی،شخصی،روحانی،سماجی اور یہاں تک کہ معاشی پہلووں پر بھی آنلائن ٹریننگ سیشنز کیئے گئے۔

احسان اللہ سنبل جو خود ایک طالبِ علم ہیں اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے سب سے اہم اور بنیادی جزو کے ٹریننگ کونسل کے ہیڈ ہیں۔خصوصا مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے ترتیب دیئے گئے بامقصد پلاننگ کی بدولت ہی نوجوان طلبہ کا لاک ڈاون شاید ان کی تعلیمی مصروفیات کے دنوں سے بھی بہترین اور مفید بن گیا۔احسان اللہ سنبل کی زیرِ نگرانی کام کرنے والی ٹریننگ کونسل کے زیرِ اہتمام ترتیب دیئے جانے والی ٹریننگ پروگرامزمیں سے رمضان کی مناسبت سے منعقد ہونے والا ''التربیہ2020''،جس مختلف عنوانات پرمیں کم و بیش 30لیکچرز دیئے گئے۔

طلبہ میں خود مختاری اور معاشی سمجھ و بوجھ کو اتارنے کے لئے تین مہینوں پر محیط ''Enterpreneurship online training session'' کے نام سے اپنی طرزکا انوکھاپروگرام تھا۔ جس معاشرے میں نوجوان نوکریوں کی لت لیئے اپنی ڈگریوں کی تکمیل کرتے ہیں اسی معاشرے میں نوجوانوں کو بزنس کے آئیڈیاز دینا ،یقینا قابل ِتحسین ہے۔''Personal Effectiveness Course'' اک ایسے معاشرے میں جہاں غصہ، جھگڑا اور غرور سیکھا اور سیکھایا جا رہا ہو وہاں شخصی بنیادوں پر تربیت کرنا اک اعلی مشن کی نشاندہی کرتا ہے۔

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی نعت کونسل کی جانب سے آنلائن نعت ٹیلی تھان،کا انعقاد، لٹریری کونسل کی جانب سے مشاعرے کا انعقاد،اور سسٹرز ونگ کی طرف سے تحت اللفظ پروگرامز،مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ سسٹرز ونگ کے زیرِ اہتمام رمضان میں الصفہ ٹریننگ سیشنز،الروحیہ کلب کے زیرِ اہتمام آنلائن نعت و قرات سیشنز،درود و سلام بر خیر الانعامﷺ،ریسرچ سوسائٹی کے زیرِ اہتمام Explore the univere,اور Know the pearls of Asiaکے نام سے تحقیقی سیشنز کیئے گئے،سوشیو ویلفیئر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام میڈیکل سٹوڈنٹ کے سیشنز اور فری ٹیوشنز کا انعقاد کیا گیا۔

انہی بہنوں کی کوششوں سے اک کامیاب فوڈ ڈرائیو کا بھی انعقاد کیا گیا۔ لاء کونسل کی جانب سے راہنمائی کے سیشنز،آنلائن کلاسز میں پیش آنے والی طلبہ کی مشکلات کو حل کروانے کے لئے آنلائن آل سٹوڈنٹس پارٹیز کانفرنس،یا خیبر پختونخواہ کے طلبہ کی انٹری ٹیسٹ کی مشکلات کو حل کروانے ہائیر ایجوکیشن کے ممبران سے گفت و شنید ہو ، مصطفوی سٹوڈنٹس مومنٹ نے ہر ہر میدان میں طلبہ کے لئے مفید اور اہم کردار ادا کیا ہے۔

اور مثبت ترین بات یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کو ترتیب دینے والے، اور ان پلاننگز پر عملدرآمد کروانے والے،سب کے سب اس عظیم ریاستِ پاکستان کا روشن مستقبل ہیں یہ ساری ٹیم طلبہ کی ہے جو اپنے ہی جیسے دوسرے طلبہ کے لئے خدمات ادا کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے صدر چودھری عرفان یوسف، اپنے ساتھ مدبر اور باحکمت نوجوان طلبہ کی اک ٹیم رکھتے ہیں جو پاکستان کے تمام طلبہ کے لئے تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتا ہے۔

اور پاکستان کے طلبہ عرفان یوسف جیسا سٹوڈنٹ لیڈر رکھتے ہیں یہ اِن کی خوش قسمتی ہے۔ بطور طالبِعلم اور اس معاشرے کی رہائشی، میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کو اس انتہا پسندانہ معاشرے میں پچھلے چھبیس سال سے نوجوان نسل کے لئے ایک معتدل کردار ادا کرنے کے لئے شکریہ بھی ادا کرتی ہوں اورچھبیسیویں یومِ تاسیس کے موقع پر خراجِ تحسین بھی پیش کرتی ہوں اور دعا ہے کہ یہ پلیٹ فارم ہمیشہ ایسے ہی طلبہ کی راہنمائی کرتا رہے۔

اور ہم پر امید ہیں کہ اس فکر اور نظریہ کے ساتھ ہم اپنے ملک کا مستقبل اور معاشرے کی روایات بدل کر ہی دم لیں گے کیوں کہ
اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی،رات ڈھلنی تو ہے،رت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری ،نکلنی تو ہے رت بدلنی تو ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :