عیدین

ہفتہ 23 مئی 2020

Irfan Qaiserani

عرفان قیصرانی

عید کے لغوی معنی ہیں”خوشی کا تہوار“ نہایت خوشی۔ جو بار بار آئے مسلمانوں کے جشن کا روز، خواجہ اجمیر نے جب صبح سویرے گنگا جل کرتے ہوئے ہندوؤں کی پرارتھنا دیکھی تو اپنے مرید خاص امیر خسرو کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ہر قوم راست راہے دین و قبلہ گاہے۔ خسرو کی رگ شعریت پھڑکی اور عرض کیا۔ من قبلہ راست کردم بر سمت کج کلاہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تہوار ہر مذہب کے پرچارک اپنے اپنے رنگ میں مناتے ہیں گو انکے نام مختلف ہیں۔

ہندو مذہب میں ہولی اور دیوالی کے تہوار خوشیاں منانے کیلئے مختص ہیں۔ ہولی کا انعقاد موسم بہار میں ہوتا ہے اور دیوالی کے موقع پر تیز روشنیوں میں لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے۔
ہندوؤں کی عید جسے دیوالی اور دیپالی کہا جاتا ہے۔دیوالی جو دیپاولی اور عید چراغاں کے ناموں سے بھی معروف ہے ایک قدیم ہندو تہوار ہے، جسے ہر سال موسم بہار میں منایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تہوار یا عید چراغان روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، نادانی پر عقل کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہوتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ اصل تہوار شمسی-قمری ہندو تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔

گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے۔
دیوالی کی رات سے پہلے ہندو اپنے گھروں کی مرمت، تزئین و آرائش اور رنگ و روغن کرتے ہیں، اور دیوالی کی رات کو نئے کپڑے پہنتے ہیں، دیے جلاتے ہیں، کہیں روشن دان، شمع اور کہیں مختلف شکلوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں، یہ دیے گھروں کے اندر اور باہر، گلیوں میں بھی رکھے ہوتے ہیں۔

اور دولت و خوشحالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے، پٹاخے داغے جاتے ہیں، بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جہاں دیوالی منائی جاتی ہے وہاں دیوالی کو ایک بہتریں تجارتی موسم بھی کہا جاتا ہے۔
غم ہی غم ہیں تری امید میں کیا رکھا ہے
عید آیا کرے اب عید میں کیا رکھا ہے
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عیدین کی وہ رونقیں، وہ روشنیاں اور وہ چہچہاہٹ کہیں کھو کر رہ گئی ہیں۔

چاند رات پہ وہ خاندان کا ایک ساتھ جھرمٹ لگنا، باورچی خانے سے آتی ہوئی مہک کا اپنا ہی ایک رومینس اور مہندی سے سجتی ریشم کلایئاں بندہ دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔مگر اب کہ پہلے سی وہ بات نہیں، روشنیاں اور رونقیں مدھم پڑ گئی ہیں۔ لوگوں سے ملنے کے بجائے اب سونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہ تو ہو گئی ایلیٹ کلاس والوں کی عید، پھر آتے ہیں وہ لوگ کہ جنکی عید ہمیشہ ایک خواب نگر کی مانند رہی۔

کچھ وہ لوگ بھی کہ جن کہ پاس ارمان بہت ہیں اور صحت کم۔ کچھ اسی طرح کی سی ہی عید یمارے تھیلیسیمیا والوں کی ہوتی ہے، کہ جنکے لیے پکوان اور مہندی تو بہت دور کی بات ہے، جنکی اہم ضرورت انتقال خون ہے، بنا انتقال خون تو کسی سے ملنے کو جی نہیں چاہتا انسان عید کیا منائے گا۔
ضروریاتِ جہاں ہم سے پوچھنے والے
تجھے یہ کیسے بتائیں کہ تُو ضروری ہے
جن لوگوں کی عید خواب نگر کی مانند ہے اور ایسے کئی لوگ آپ کے گردونواح میں موجود ہیں ان میں خوشیاں بانٹیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی طرح وہ کھوئی ہوئی رونقیں لوٹ آئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :