وبا اور تھیلیسیمیا

جمعہ 1 مئی 2020

Irfan Qaiserani

عرفان قیصرانی

زیست کیا ہے۔زیست خوشی کی خرم گاہ اور غموں کا نگر ہے۔ یہاں انسان کا ان دونوں چیزوں سے پالا پڑتا ہے۔ان غموں میں سے ایک غم تھیلیسیمیا کا ہے۔   
تھیلیسیمیا  دو گھنٹے کی  وہ بیماری نہیں  ہے جسے  لوگ محض خون  کا انتقال سمجھتے ہیں ۔ اور نہ ہی یہ کوئی ایسا مرض  ہے کہ جسے آپ انار،گاجر یا کسی بھی اور پھل کا جوس پی کر اپنا خون بڑھا سکتے ہیں ، بلکہ تھیلیسیمیا وہ مرض  ہے جو نام ہے ایک احساس کا، اپنائیت کا ، یہ ایک ایسا دل دہلا دینے والا  مرض ہے  جس کی نوعیت یا تو آپ خود سمجھ سکتے  ہیں یا آپ کے والدین اور اس بات  میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس وقت تھیلیسیمیا کو پاکستان  میں ایک کاروبار کی  طرح استعمال کیا جارہا ہے۔


تھیلیسیمیا ایک پیدائشی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا بچوں کا جسم خون بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)

اس بیماری کی تین اقسام بشمول تھیلیسیمیا مائنر، تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اورتھیلیسیمیا میجرہیں
پاکستان میں آج بھی تھیلیسیمیا  اس مرض کا نام ہے ہے کہ جہاں آپ کی رہنمائی  ڈاکٹر حضرات سے زیادہ  آپ کا کوئی بھی  تھیلیسیمیا  میں مبتلا  دوست کرتا ہے۔

تھیلیسیمیا  کے بہت سے ڈاکٹرز کو ڈاکٹر کی بجائے قصائی کہا جائے  تو بجا ہوگا ۔
چھوٹے بچوں اور جوانوں کی روشن آنکھیں اور پھول جیسے کھلتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کسے گمان ہو سکتا ہے کہ وہ تھیلیسیمیا جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ ہم لوگوں کو جب بھی کوئی عام شخص تھیلیسیمیا  وارڈ یا سینٹرز میں دیکھتا ہے تو مسکان اس کے چہرے کا ساتھ نہیں دیتی۔

کوئی بھی تھیلیسیمیا مریض یا اس کے والدین  وہ جتنے بھی پیسے کما لیں، اس کا بیشتر حصہ اس کے علاج پر خرچ کرنا ان  کی مجبوری ہوچکی ہے۔
حکومتی سطح پر پاکستان میں اس کے لیے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے لیکن بلڈ بینک کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بی ٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے اور بی ٹا تھیلیسیمیا مائینر کی شرح 6 فیصد ہے یعنی سن 2000 میں ایسے افراد کی تعداد 80 لاکھ تھی۔

جن خاندانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں لگ بھگ 15 فیصد افراد تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہیں۔
کراچی میں قائم تھیلیسیمیا کے علاج اور روک تھام سے متعلق ادارے کے تیار کردہ تحریری مواد کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال ان مریضوں میں 6 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بری طرح دوسروں کے خون کے محتاج ہیں‘ تھیلیسیمیا کے بچے نوول کورونا کا پہلا شکار ثابت ہوئے‘ ملک میں لاک ڈاؤن ہوا اور سوسائٹی کا سائیکل ٹوٹ گیا‘ خون دینے اور خون جمع کرنے والے دونوں گھروں میں محصور ہو گئے چنانچہ لاکھ بچے سسکنے لگے‘ بچوں کے لواحقین اس وقت حکومت‘ این جی اوز اور عام لوگوں کی  منتیں کر رہے ہیں لیکن ان کے لیے خون کا بندوبست نہیں ہو رہا۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا لاک ڈاؤن جاری ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کے ساتھ آن لائن ٹرانسپورٹ ایپلیکیشن بشمول اوبر، کریم، بائیکیا اور دیگر بھی بند ہیں اور سڑکوں پر پولیس اور رینجرز کی جانب سے ہر گاڑی اور دیگر سواریوں سے پوچھ گچھ کے باعث شہر میں ہو کا عالم ہے۔
اس صورت حال میں خون کا عطیہ دینے والا عمل سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کیونکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد ہسپتال اور خون لینے والے مراکز تک نہیں پہنچ رہے ہیں جس سے پاکستان بھر  میں موجود تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کا علاج کرنے اور انہیں خون دینے کا کام کرنے والے بہت بڑے مخصوص مراکز پر خون مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔


 'تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے تین طریقوں سے خون جمع کیا جاتا ہے۔ یا تو مریض کے لواحقین کسی جاننے والے کو ساتھ لاتے ہیں اور وہ خون عطیہ کرتے ہیں، یا کچھ لوگ خود ہسپتال آکر خون کا عطیہ کرتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم شہر میں سڑک پر موبائل کیمپ لگاتے ہیں اور لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خون عطیہ کریں، مگر لاک ڈاؤن کے باعث تینوں طریقے متاثر ہوئے ہیں اور ہمیں خون کی کمی کا سامنا ہے۔
آخر میں میری آپ سب ڈاکٹرز سے، عوام سے اور والدین سے یہ گزارش ہے کہ کسی بھی تھیلیسیمیک کو ہمدردی،بیچارگی اور حقارت سے مت دیکھیں۔
ان سے پیار کریں ان کہ درد کو سمجھیں .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :