جی ٹی روڈ اور گجرات

بدھ 7 اکتوبر 2020

Irfan Qaiserani

عرفان قیصرانی

جی ٹی روڈ کا نام سنتے ہی سب کے دلوں اور دماغوں میں ایک ہی بات آتی ہوگی کہ " اپنی کمر کے نٹ ڈھیلے کروانا"
کسی اور کے دل اور دماغ میں یہ بات آئے یا نہ آئے مگر میرے تو یہی آتی ہے۔
اویس بھائی میرے کلاس فیلو بھی ہیں اور میرے ہوسٹل میٹ بھی، اکثر مجھے گجرات آنے کی دعوت دیتے ہیں مگر ہمیشہ جی ٹی روڈ آڑے آتا ہے۔
جی ٹی روڈ کو میں روڈ کم اور خوف زیادہ سمجھتا ہوں اور مجھے اپنی کمر کے نٹ نہایت عزیز ہیں۔


اسی خوف کے نتیجے میں مینے "یونیورسٹی آف گجرات" میں داخلہ نہیں لیا اب اسے آپ میری نالائقی سمجھیں یا میری سٹریٹیجی ، یہ آپ پہ منحصر ہے۔
گجرات صوبہ پنجاب کا ایک شہر اور ضلع گجرات کا صدر مقام ہے۔ گجرات پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شمال میں واقع ہے۔

(جاری ہے)

اس ضلع کے مشرق میں گرداسپور خالصتان شمال مشرق میں جموں شمال میں بھمبر اور جہلم مغرب میں منڈی بہاؤالدین جنوب مغرب میں سرگودھا جنوب میں گوجرانوالہ اور جنوب مشرق میں سیالکوٹ واقع ہے۔

یہ شہر مشہور شاہرا ‎‎جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اس ضلع کے جنوب سے دریائے چناب اور شمال سے دریائے جہلم ‎ گزرتا ہے۔ اس ضلع کی تین تحصیلیں گجرات کھاریاں اور سرائے عالمگیر ہیں۔
سرائے عالمگیر پاکستان
سرائے عالمگیر یا سارہ ای عالمگیر ضلع گجرات کی ایک تحصیل ہے. سرائے عالمگیر مرکزی جی ٹی روڈ پر اور دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر واقع ہے. سرائے عالمگیر کی آبادی 60،000 کے قریب ہے. وادئ سندھ کی تہذیب اور گندھارا تہذیب کے وقت سے اس علاقے کی تاریخ بہت پرانی ہے. Hydaspes کی جنگ جگہ قریبی لیا، سکندر اعظم اور راجہ پورس کی فوج کے درمیان مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے اس جگہ پر ایک سرائے (ہوٹل) بنایا. تو اس بادشاہ کے نام کے بعد، وہاں ایک شہر قائم ہوا، سرائے عالمگیر.
MCJ (ملٹری کالج جہلم) بھی اس سرائے عالمگیر میں واقع ہے. کالج کے طور پر "کنگ جارج V رائل انڈین ملٹری اسکول" سب سے پہلے مارچ 3rd، 1922 پر کیا گیا تھا قائم روہتاس قلعہ سیاحوں کے لیے بہت مشہور جگہ ہے.
ایسی کئی تاریخی عمارتیں اور باقیات کھنڈروں کی شکل میں گجرات کے آس پاس موجود ہیں۔

گرینڈ ٹرنک روڈ جسے "جی ٹی روڈ" بھی کہا جاتا ہے، شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی جو گجرات کے پاس سے گزرتی ہے، ابھی تک جوں کی توں موجود ہے- یہاں کے زیادہ تر لوگ گجر آرائیں مہر ،جٹ وڑائچ ہیں۔
گجرات ایک نہایت خوبصورت شہر ہے اور یونیورسٹی آف گجرات میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں ہو کہ جس کی عمارت گٹار کی شکل دیتی ہو وہ کسی کو کیسے پسند نہیں آ سکتی۔


مگر میرا یہ ماننا ہے کہ جب آپ نے کسی خوبصورت جگہ جانا ہو اور جس رستے سے اپ نے جانا ہو نہایت بد صورت ہو تو پھر اس جگہ کی خوبصورتی کو بھی گرہن لگ جاتا ہے۔
کچھ یہی صورتحال 2 سال قبل ڈی جی خان تا لاہور بھی ہوتی تھی ک ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہونے والا یہ سفر میں ساڑھے آٹھ گھنٹے میں کیا کرتا تھا۔
امید ہے کہ حکومت کو جلد گجرات کی طرف بھی روڈ بنانے کا کا خیال آئے گا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :