کماؤ پوت

منگل 12 مئی 2020

Irfan Qaiserani

عرفان قیصرانی

بیچنا، نکلوانا ، نکلوا کر رکھوانا
جیب گرم رکھنے کا ہے یہ بہانا
ابتدا سے خلق انسانی کا یہ دستور چلا آرہا ہے کہ بنی نو انسان  نے ہر اس چیز  کی پیروی کی اور اسے اپنی اولاد کی طرح پالاجس سے اسے کوئی فیض حاصل ہو۔
کچھ یہی حال  آج ہمیں اس ترقی پذیر ممالک میں  قائم اپنے تھیلیسیمیا سینٹرز کا نظر آتا ہے۔

ان تھیلیسیمیا سینٹرز کے مالکان  اپنے سینٹرز کی پرورش اپنے بچوں کی مانند کرتے  ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے جیب گرم اور پیٹ بھاری رہتا ہے۔ ان سنٹرز  کو سالانہ کروڑوں کی ڈونیشن دی جاتی ہے ، جس کا نصف اس سنٹر کے تھلیسیمیا پیشنٹ پے صرف کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے اگر ہم لفظ  اباحیہ  استعمال کریں تو بجا ہوگا۔
اگر ادویات کی بات کی جائے  تو کمپنیوں کے تقسیم کار نمائندے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات رکھواتے  ہیں اور تھیلیسیمیا کے مریضوں سے ان ادویات کو نکلوا کر کروڑوں کماتے ہیں۔

(جاری ہے)


یہ  اپنے اس چند دن کے کاروبار سے کروڑوں کما کر اپنے گھروں میں بیٹھ کر سکون کی زندگی گزارتے  ہیں ، اور وہ مریض جنہوں نے یہ ادویات سالہ سال کھانی ہوتی ہیں وہ اگلے ایک سال تک ان ادویات سے محروم رہتے ہیں  اور انکے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ شاید خدا کو تو ڈھونڈ لیتے ہیں مگر ادویات نہیں ملتی اور اسی اثناء میں کئ مریض اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔


اس عالم میں مریض محض کسمپرسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود سینٹرز کے مالکان  کو مریضوں کے اس درد سے کوئی سروکار نہیں۔ اس درد کو اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ ہیں، وہ مائیں جو اپنے بچوں کی اچھی صحت کے لیۓ کراچی کی بسوں میں دھکے کھاتی نظر آتی ہیں، وہ مائیں جنہوں نے اس مرض میں مبتلا اپنے بیٹے اور بیٹیاں کھو دیں۔
وہ دوست جنہوں نے اپنے جگری یار کھوئے، بہاولنگر کے وہ لوگ جو لاہور آ کر خون کے انتقال کو ترستے ہیں، اور ڈیرہ غازی خان کے وہ لوگ جو سینٹر کو ہی ترس رہے ہیں۔


اور دوسری طرف بات کرلی جائے ان لوگوں کی جو اپنے حق کے لئے بولتے ہیں ، جو اپنے بچوں کے حق کے لئے بولتے ہیں،  غلط بات پہ چپ نہیں رہتے ، جو اپنے دم پہ کچھ کر کے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے ہمارے ملک میں  یہ اعزاز ہے کہ انہیں کانفرنسوں پے بین کردیا جاتا  ہے انہیں کسی تقریب میں شمار نہیں کیا جاتا  اور انہیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ۔


ہر سال نیشنل تھیلیسیمیا کانفرنس اور ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے(8th May) پر بڑے برے دعوے کیے جاتے ہیں۔ کہیں جدید سہولیات دینے کہ تو کہیں صحت کارڈ  دینے کہ، لیکن اگر ہمیں کچھ دیا جاتا ہے تو وہ ہے انتظار، انتظار اور بس لمبا انتظار۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ان سینٹرز میں بڑی بڑی تقریبات منعقد ہونے پہ، سیاسی شخصیات کی شمولیت پہ 8 سے 10 چمکتی صحت والے مریض اور 8 سے 10 فولاد سے بھرے مریضوں کو مدعو کر کے ہمارے نام پہ  سیاسی شخصیات سے لاکھوں لیئے جاتے ہیں اور ہمیں ملتا ہے انتظار، انتظار اور بس لمبا انتظار۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :