"کیا واقعی موجودہ دور میں مہنگائی ہے؟"

منگل 12 جنوری 2021

Irfan Sher

عرفان شیر

مجودہ دور مقابلے بازی کا دُور ہے۔ہر بندہ اپنے رھن سہن،اپنے حسب نصب،اپنے معیار زندگی،اپنی شان و شوکت کو دوسرے کے مقابلے میں اعلیٰ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ہر بندہ اپنی زندگی کو بہت عمدہ،آسان، اعلیٰ معیار بنانے میں لگا ہوا ہے۔انسان اپنے آپ کو ایسا بنانا چاہتا ہے کہ لوگ اُس پر رشک کرنے لگیں اور اور پھر رشک کرتے کرتے لوگ اُس کو فالو کرنے لگ جائیں۔

یوں انسان سمجھتا ہے کہ لوگ اُس کو فالو کر رہے ہیں لیکن حقیمت میں انسان دوسرے انسان کو فالو نہیں کر رہا ہوتا بلکہ انسان دوسرے انسان کے معیار زندگی،شان و شوکت کا مقابلہ کر رہا ہوتا ہے اور مقابلے میں تو ایک انسان دوسرے انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اُس سے آگے نکلے۔
اگر ہم آج سے ۲۰ سے ۳۰ سال پہلے کے لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے اُس وقت زندگی کتنی سادہ اور خالص تھی۔

(جاری ہے)

لوگ ایک دوسرے کا ادب و احترام کرتے تھے۔ گھر آئے مہمان کو اللہ کا مہمان سمجھتے تھے۔لوگ میٹھے سچے اور پاک نیت ھوتے تھے۔ لوگوں کے پاس زیادہ وسائل نہیں تھے لیکن لوگ اپنی محنت اور عقل سے اپنی پہچان کرواتے تھے۔لوگ سادگی کو اپنی زندگی کا معیار سمجھتے تھے۔ اُس وقت کے لوگوں کے گھر کے اخراجات بہت کم ہوتے تھے اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لوگ صرف بہت اہم اور قیمتی چیز ہی خریدتے تھے باقی جو چیز زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی یا پھر استعمال کم ھوتی تھی اُس چیز کو یا تو خریدا نہیں جاتا یا پھر بہت کم معمولی حیثیت کے مطابق  خریدا جاتا تھا۔

لیکن آج ہم نے اپنی خواہشات کو اور اپنے دکھاوے کو ضروریات کا نام دے دیا ہے۔جس چیز کی نفس نے خواہش کی وہ ہماری ضرورت بن گئی۔جبکہ ہمارے بزرگوں نے بہت سادہ زندگی گزاری اتنی سادہ زندگی کہ نوکر اور مالک میں ہر عام و خاص شخص کو فرق کرنا مشکل ہو جاتا تھا مالک کی وہی وضع قطع وہی ھوتی تھی جو نوکر کی ھوتی تھی۔لوگ اِس میں اپنی شان سمجھتے تھے اس میں شرم مندگی محسوس نہیں کرتے تھے۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا واقع موجودہ دور میں مہنگائی ہو گئی ہے؟تو میرے مطابق اس کا جواب ہے نہیں!
اگر آج کی نوجوان نسل (یعنی ہم) اپنے والدین کی جوانی پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ فرق کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی جوانی میں بہت محنت کی بہت کٹھن سفر گزرا۔ بہت سی خواہشات تو دور کی بات اپنی بہت سی ضروریات  کو نہ پورا ھوتے دیکھا۔

لیکن آج ہم ہر اپنی ضرورت کے ساتھ اپنی خواہش کو پورا ھوتا دیکھ رہے ہیں۔اگر صرف گزرے ہوئے وقت کی اور موجودہ وقت کی صرف ضروریات کو دیکھا جائے تو منہگائی نہیں ہے کیوں کہ گزشتہ زمانے میں تو انساں کی ضروریات پوری نہیں ھوتی تھیں لیکن آج تو ضروریاتِ زندگی کے ساتھ انسان کی خواہشات بھی پوری ہو رہی ہیں۔
اب بات آتی ہے اشیاء ضروریات کی قیمتوں کی۔

اگر ھم چینی کی قیمت کو دیکھیں، آج چینی کی مارکیٹ میں قیمت ۸۰ یا ۸۵ روپے ہے لیکن گزشتہ دو تین حکومتوں سے پہلے چینی کی قیمت ۲۰ سے ۳۰ روپے کے درمیان تھی۔عوام یہاں پر روتی ہے کہ ماضی میں چینی اور دیگر اشیاء ضرورت کی قیمتیں بہت کم تھیں لیکن آج قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔اس کی وجہ مہنگی نہیں ہے بلکہ اُس وقت ایک مزدور کی مزدوری اور ایک سرکاری ملازم کی تنخوا ہی اتنی ھوتی تھی کہ وہ ۲۰ سے ۳۰ کے درمیان میں فی کلو چینی خرید سکتا تھا۔

اِس کی ایک  بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کی ضروریات اشیاء کی قیمتوں انحصار کرتی ہیں کسی بھی مُلک کے ریٹ آف گروت(rate of growth) اور ریٹ آف پروڈکشن(rate of production) پر۔اور یہی اکنامکس کا قانون ہے۔کہ جتنی ہی کوئ پروڈکٹ پروڈیوس ہو گا مارکیٹ میں اُس کی قیمت اتنی ہی قابو میں رہے گی۔بدقسمتی سے پاکستان کی زراعت دن با دن زوال کا شکار ہو رہی ہے۔جس کی وجوہات یہ ہیں: کہ کسانوں کو اُن کے حقوق نہ ملنا،کسانوں کو مہنگے داموں فصل کاشت کرنی پڑتی ہے اور نفع کے بجائے نقصان کا سامنا کرنا پڑتاہے،بہت سی زرعی زمین کمرشل پلاٹ میں تبدیل ھوتی جا رہی ہے،کسان دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔


اِن تمام اور دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستان کے کسان اور پاکستان کے پروڈکشن پلانٹ ضرورتِ اشیاء اُس کوانٹٹی میں نہیں پروڈیوس کر رہے جس کی ڈیمانڈ موجودہ حالات کے مطابق مارکیٹ میں ہیں۔امونٹ آف کوانٹٹی کسی بھی چیز کی شرح آبادی پر انحصار کرتی ہے۔ماضی کے مقابلے آبادی بھی دن با دن بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے کسی پروڈکٹ کی کوانٹٹی کی ڈیمانڈ بھی مارکیٹ میں بڑھ رہی ہے۔


قدرت کی ذات نے انسان کو پیدا کیا تا کہ وہ اپنی پہچان کروا سکے اور ہر انسان دوسرے انسان کو پہچان سکے۔پہچان میں یہ بھی شامل تھا انسان دوسرے انسان کی ضرورت کا خیال رکھ سکے۔لیکن افسوس انسان جہاں دوسری عظیم صفات سے غافل ہو گیا وہی انسان خودپرست ہو گیا ہر انسان کو اپنے سوا دوسری کوئی ذات نظر ہی نہیں آتی۔ایک دوسرے کا حق کھانا انسان نے اپنے اوپر فرض سمجھ لیا۔

اسی ناجائز فرض کو لیتے ہوئے ہم نے اللہ تعالیٰ کی نمتوں میں بھی کالا دھندا شروع کر دیا ہے۔جب کوئی نئی فصل کاشت ھوتی ہے تو کرپٹ مافیا اسے گوداموں میں سٹور کر کے بعد میں اسے مہنگے داموں فروخت کرتا ہے یوں کسی بھی چیز کی قیمت مارکیٹ قیمت سے زیادہ میں فروخت ہونے لگتی ہے۔یہ بھی ایک مہنگائی کی وجہ ہے۔
اب بات آتی ہے کیا آنے والے وقت میں ضرورت اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئے گی تو میرے مطابق اس کا جواب ہے شاید نہیں۔

کیوں کہ جیسا کہ میں اوپر واضع کر چکا ہوں کہ کسی چیز کی مارکیٹ قیمت انحصار کرتی ہے شرح آبادی پر آبادی بڑھے گی تو مارکیٹ میں چیز کی قیمت بڑھے گی۔اُس کے بعد زراعت ہماری دن با دن تباہ ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اشیاء ضرورت کی پروڈکشن کی تعداد کم ہو رہی یوں مارکیٹ میں قیمت بڑھ رہی ہے۔
اس بحران سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی زراعت کو مضبوط کرنا ہوگا۔

کرپٹ مافیا کے خلاف حکومت کو ایکشن لینا ہو گا۔
زندگی اللہ کی طرف سے دیا ہوا ایک قیمتی تحفہ ہے۔ہم ایسے ہی اُلجھن اور حسد میں زندگی کیوں گزار دیتے ہیں کہ فلاح کے پاس یہ ہے فلاح کے پاس یہ۔ہمارے پاس جو ہے ہم اُس کا اللہ سے شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔اسی ناشکری کی وجہ سے معاشرے میں بیگار پیدا ہوتا ہے اور انسان حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔اگر ھم زندگی سادگی سے گزاریں گے تو بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :