"کشمیر جنت کی وادی یا خون کی نہریں"

بدھ 10 فروری 2021

Irfan Sher

عرفان شیر

تاریخی طور پر جس علاقہ کو کشمیر کہا جاتا ہے وہ عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور پیرپنجال کے درمیان واقع ایک خوبصورت وادی کا نام ہے کشمیر لفظ کا مطلب کشمیری زبان میں پانی کا خشک ہو جانا بتایا جاتا ہے ۔یہ علاقہ ایک بہت بڑی جھیل تھی جو موسمیاتی تغیرات سے خشک ہو کر وادی بن گئی ۔وادی کشمیر اپنے باغات اورجھیلوں کی وجہ سے اس قدر خوبصورت ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر جب یہاں آیا تو اس نے کہا کہ "زمین پر اگر کہیں جنت ہے تو وہ یہیں ہے!یہیں ہے !"کشمیر کو ایشیا کا سوٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے ۔

یہاں کا موسم یورپ سے ملتا جلتا ہے ۔یعنی سردیوں میں برف پڑتی ہے اور پہاڑ سفید ہو جاتے ہیں جبکہ باقی سال بھر موسم بہت خوشگوار رہتا ہے ۔اس لیے وادی کشمیر سیاحت کے لیے بہت مشہور ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جس علاقہ پر تنازعہ ہے اور جس کو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا وہ ریاست جموں کشمیر کہلاتا ہے اور وادی کشمیر سے بہت بڑا علاقہ ہے۔

وادی کشمیر اس ریاست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔وادی کشمیر کا کل رقبہ تقریباََ ساڑھے آٹھ ہزار مربع میل ہے جبکہ ریاست جموں کشمیر کا رقبہ جیسا کہ وہ تقسیم ہندوستان کے وقت موجود تھی تقریباََ ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل ہے ۔یعنی وادی کشمیر سے تقریباََ دس گنابڑا ہے اورپاکستان کے صوبہ پنجاب سے بھی تقریباََ پانچ ہزار مربع میل زیادہ ہے ۔
جب تقسیم ہند میں ریڈ کلف ایوارڈ نے بدنیتی سے گورداسپور ہندوستان میں شامل کردیا تو کشمیر کی آزادی کیلئے مقامی کشمیری لیڈروں اور مجاہدین کے ساتھ قبائلی لشکر 22اکتوبر1947 کو کشمیر کی سرحد عبور کر کے سری نگر تک جا پہنچے، مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد طلب کی مگر ہندوستان نے شرط رکھی کہ وہ پہلے کشمیر کا ہندوستان کیساتھ باقاعدہ الحاق کا اعلان کرے۔

چنانچہ راجہ نے ایسا ہی کیا اور حتمی فیصلہ رائے شماری میں طے پانے کی بات تسلیم کرائی ہندوستان کی باقاعدہ فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں اور اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا جس پر پاکستان کی افواج کے دستے بھی بریگیڈیئر اکبر کی قیادت میں کشمیر میں داخل ہو گئے۔ جب ہندوستان کو محسوس ہوا کہ پاکستان کے قبائل اور مقامی کشمیریوں کا لشکر کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا چکا ہے لیکن ایسا نہ ہوا کہ مکمل کشمیر پر کشمیری مجاہدین اور قبائلی لشکر قابض ہو جائے وہ کشمیر کے مسئلے کو 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ میں لے گیا چونکہ ہندوستان کو کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت حاصل تھی تو اسے یقین تھا کہ ریفرنڈم میں اسے فتح حاصل ہوگی مگر یکم جنوری 1949 کو ہندوستان اور پاکستان میں سیز فائر ہوگیا اور کنٹرول لائن وجود میں آ گئی مگر آج تک ہندوستان اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔


آزادیِ پاکستان سے اب تک ہندوستان اور افواج ہندوستان کے ظلم کشمیر پر ھماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ آئے روز کسی نا کسی مسلمان بھائی یا بہن کو اس وجہ سے شہید کر دیا جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنی آزادی کی آواز اٹھاتا یا اٹھاتی ہے یا پھر پاکستان کے ساتھ شمولیت كا پیغام پھیلاتا یا پھیلاتی ہے۔اسے آپ نفرت کہہ لے یا پھر زبربستی کشمیر پر قبضہ یہ عمل اب اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ کشمیر میں اب کرفیو لگا دیا گیا ہے اگر کوئی کشمیری ہندوستان کی فوج کو باہر نظر آتا دکھتا ہے وہ اُسے ظلم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیتے ہیں۔

کشیمری ماؤں بہنوں کی عزت کے ساتھ سرعام کھیلا جا رھا ھے۔آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے اور روشنیوں کے اس خطے میں جبر کی گھنگور گھٹائیں تڑ تڑا رہی ہیں۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرار داد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی۔


لیکن افسوس پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک بھی بےبسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔آج تک ہمارے مُلک کے سربراہ اور وزیرِ خارجہ اقوام متحدہ میں کشمیر کی اُن کے حقوق اور اُن کی آزادی کی صرف تقریریں ہی کرتے رھے ھیں۔عملی کوئی ردعمل واضع نہیں ہوا۔ھم اُن پر انحصار کرنے لگے جو کہ اس ظلم میں خود ملوث ہیں۔ھم اقوام محتدہ کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔

جب کہ شاید وہ خود اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے۔ہم مسلمان اتنا بے بس اور انا پرست ہو گئے کہ جہاد کو تو ظلم سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن ہمیں کشمیر پر بھارت کے ظلم جائز لگنے لگ گئے ہیں۔جب کہ یہ اسلامی تعلیمات میں شامل ہیں کہ جب کسی دوسرے مسلم بھائی پر ظلم ہوتا دیکھو تو اسے ہر حال میں روکنے کی کوشش کرو چاہئے زبان سے عمل سے اگر پھر بھی نہ روکے تو تُم پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔

لیکن افسوس ھم اور ہمارے لیڈرز اِن تعلیمات کو بھول گئے اور ایسے مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ بھارت اس معاملے میں کوئی بات تک نہیں کرنا چاہتا اُسے تُو صرف زمین کے ایک ٹکڑے پر سیاست کر کے ظلم کرنے ہیں۔
ہم یہ دیکھ سکتے ہیں مودی ماضی میں بھی کشمیر کے مسئلے کو لے کر سیاست کرتا رہا ہے اور اب بھی وہ سیاست کر رہا ہے اور وہ اپنے اس نا پاک مقاصد میں کامیاب بھی ہو رھا ھے۔

اور ہمارے لیڈرز کہتے ہیں ھم امن کی زبان سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں کون سی امن کی زبان سے بات ہو رہی ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔اور اسی امن کی زبان بولتے بولتے کشیمر جو کے جنت کی وادی ھوتی تھی افسوس بھارت کے ناجائز مقاصد اور ہماری چپ اور بے بسی کی وجہ سے خون کی نہریں میں تبدیل ہو گیا ہے۔
دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اب جنگیں تلواروں اور بندوقوں کے زور پر نہیں لڑی جا سکتیں جس مُلک کے پاس ایٹمی پاور ہے وہ اپنے مخالف مُلک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک لفظوں میں یہ کہا تھا اگر دونوں ملکوں نے اپنی سپریم پاور کا استعمال شروع کر دِیا تو اس کے اثرات نا صرف پاکستان اور بھارت دیکھے گئے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو سکتی ہیں لہٰذا اقوام متحدہ اس مسئلے کا حل نکالیں ورنہ پاکستان اپنی سوپر پاور استعمال کرنے میں مجبور ھو جائے گا۔

اور یہ بات عمران خان کی کافی حد تک درست بھی ہے۔اور ھم یہ سوپر پاور صرف کشیمر کو آزاد کرنے کے لئے استعمال کرے گے جب کہ بھارت کے سیاست دان اپنی پوزیشن اور کرسیاں محفوظ کرنے میں استعمال کرے گے یوں بہت زیادہ بیگار پیدا ہو جاۓ گا۔
اورایک بار ہم نے طاقت کا استعمال شروع کردیا تو ہم تو پھر بھی صرف کشمیری کی آزادی تک محدود رہیں گے لیکن بھارت کے دہشت گرد حکمران جنگ جیتنے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دیں گے اور دنیا کو ایٹمی تباہی سے دوچار کریں گے، ہم ایٹمی جنگ نہیں کریںگے نہ چاہتے ہیں لیکن اگر بھارت نے کوئی ناپاک جسارت کی تو ظاہر ہے کہ پھر ہم بھی جواب دینے پر مجبور ہوںگے، ہمارا یہ موقف ہی کشمیری بہن بھائیوں کو آزادی دلاسکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :