"معاشرے کے رسم و رواج اور اصل حقائق"

جمعرات 7 جنوری 2021

Irfan Sher

عرفان شیر

اکیسویں صدی کے موجودہ دور میں ہم انسانوں نے اپنی زندگی کو بہت ایڈوانس بنا دیا ہے۔اتنی جدید اور ایڈوانس زندگی ہم گزار رہے ہیں کہ ہر کام كو سر انجام دینے کے لئے مارکیٹ میں ہر قسم کے جدید مشینری الات متعارف ہو گئے ہیں۔انسان نے بھی اپنا اندازِ زندگی کو جہاں تبدیل کر دیا وہاں اِن مشینری الات کا استعمال بھی دن با دن زور پکڑ رہا ہے۔

۔جہاں ماضی کے دور میں گھر کی ضرورت کی اشیاء کی تعداد بہت کم ھوتی تھی وہاں آج کے دور میں گھر کے ہر کمرے میں الگ ٹیلیویژن الگ موبائل جیسی ڈیوائسز گھر کے ہر فرد کی ڈیمانڈ بن چکی ہے۔
اسی طرح دور حاضر میں جہیز جیسی رسم بھی عام ہو چکی ہے۔گزرے زمانے میں بھی عورت کو جہیز دیا جاتا تھا لیکن اُس وقت گھر کے استعمال کی چند ضرورت کی اشیاء دی جاتی تھیں۔

(جاری ہے)

لیکن افسوس یہ ضرورت دکھاوے اور پھر ڈیمانڈ اور مجبوری میں منتقل ہو گئی۔ کہنے کو تو انسان نے بہت ترقی کر لی  اپنی ظاہری حالت کو تبدیل کر دیا لیکن اندر سے انسان آج بھی بہت کھوکھلا ہے۔انسان آج اپنی پوری زندگی صرف اس ایک جملے "لوگ کیا کہیں گے" کے تلے دب کر گزار دیتا ہے۔اور تو اور اس جملے کے دباؤ کے تلے دب کر  والدین اپنی بیٹی کا فرض جہیز جیسی لعنت سے تول کر ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کے معیار کو لوگوں کی کہیں ہوئی باتوں کے مطابق ڈھال دیا ہے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے آزاد فطرت کےپیدا کیا ہے۔اُس کو سمجھنے کی صلاحیت بخشی ہے۔صحیح اور غلط میں واضع فرق رکھنے کا ہُنر بھی دیا ہے۔اور ہدایت اور رہنمائی کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آخری آسمانی کتاب نازل فرمائی۔

جو کہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے واحد ہدایت کی روشنی ہے۔اسی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے جہاں عورت ذات کے حقوق پر زور دیا ہیں وہاں عورت کو یہ حق بھی دینے کو کہا ہے کہ جیسے والدیں اپنے بیٹوں کو جائیداد میں حصہ دیتے ہیں ویسے ہی بیٹیوں کو بھی جائیداد میں حصہ ملنا چاہیے(عورت کے لیے وراثت میں حصہ نصف ہے مرد کے مقابلے میں).
مردوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی میراث میں حق دیا گیا. تقسیمِ میراث کا متوازن اور منصفانہ نظام مقرر کیا گیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی. اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت بھی اپنا حق رکھتی ہے اور اس کو اس کا حق شرعیت کے مطابق ملنا چاہیے. ہمارے معاشرے میں عورت کا کردار بہت ہی اہم ہے. اور یہ بات اپنے ذہن میں باور کرانی چاہیے کہ ہر عورت اک ماں ہوتی ہے اور ماں کا رتبہ اسلام میں بہت بلند ہے۔

ماں ایک عورت بھی ہوتی اور عورت معاشرے میں تبھی زندہ رہ سکتی ہے جب اسکو اسکا اصل حق ملے گا اسکو پہچان ملے گی عزت ملے گی اور تحفظ ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :