"میڈیا کی آزادی"

پیر 18 جنوری 2021

Irfan Sher

عرفان شیر

ایک وقت تھا جب کسی شخص کو اپنے پیارے یا عزیز کو کوئی پیغام یا اطلاع دینی ہوتی تھی تو وہ گاؤں کے کسی مڈل یا میٹرک پاس فرد کے پاس جاتا اور اُس کے ذریعے اپنا پیغام یا اطلاع قلمبند کرواتا اور پھر ڈاک کے ذریعے وہ تحریر اپنے پیارے تک پہنچا کر اپنے خط کے جواب کا انتظار کرتا۔اِس عمل کو اپنے اختتام تک پہنچنے کے لئے کافی دن لگتے تھے۔

اپنا پیغام بھیجنے والے کو اور لینے والے کو  بہت انتظار کرنا پڑتا تھا۔
لوگوں کو بہت کم کسی خبر کا علم پہنچتا تھا۔لوگوں کو مُلک کے حالات و واقعات، مجودہ صورتحال کا علم بہت کم وصول ہوتا تھا اِس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی لوگوں کے پاس اُس وقت بہت کم ذرائع ھوتے تھے۔ذرائع اتنے کم ہوتے تھے کہ لوگوں کو اپنے گاؤں یا شہر کا بھی مکمل علم نہیں ھوتا تھا۔

(جاری ہے)

لوگوں کو اگر مُلکی حالات معلوم کرنے ہوتے تھے تو وہ ریڈیو کا سہارا لیتے تھے۔
پاکستان جب وجود میں آیا تو سب سے پہلے لوگوں کو اطلاع ریڈیو کے ذریعے ملی تھی۔وہ سنہری الفاظ یہ تھے پاکستان بنے سے پہلے چند لمحے ( یہ ریڈیو لاہور ہے۔۔۔۔۔) اور پاکستان بنے کے چند لمحے بعد کے الفاظ یہ تھے (یہ ریڈیو پاکستان ہے۔۔۔۔)۱۹۶۴ میں جب پاکستان میں ٹیلیویژن وجود میں آیا تو لوگوں کو مُلکی حالات و واقعات کے ساتھ ڈراموں،کھیلوں،فلموں،اور دیگر تفریحی اور معلوماتی پروگرام سرکاری ٹی وی پر نشر ہوتے دیکھنے کو ملیں۔

اُس وقت لوگوں کی زندگی میں اب کافی تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔لوگوں نے اپنی زندگی کو مختلف شیڈول کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا۔ایک مخصوص وقت مقرر کر دیا گیا کہ اِس پسندیدہ پروگرام کو ٹی وی پر نشر ہوتے دیکھنا ہے۔ وقت کے ساتھ انسان کی تعلیم میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا تو پرنٹ میڈیا کی طرف بھی لوگوں کی توجہ شروع ہو گئی اخبار کو لوگوں نے صبح سویرے پڑھنا معمول بنا دیا۔


مجودہ دور میں ھم میڈیا کو تین اہم حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۱: الیکٹرانک میڈیا ۲: پرنٹ میڈیا ۳: اور سوشل میڈیا۔
الیکٹرانک میڈیا میں ٹیلیویژن،کمپیوٹر،ریڈیو اور موبائل وغیرہ شامل ہوتا۔پرنٹ میڈیا میں اخبار،بلاگز،میگزین وغیرہ شامل۔سوشل میڈیا میں سوشل ایپس جیسا کہ فیسبوک،ٹویٹر وغیرہ شامل ہیں۔دور حاضر میڈیا کا دور ہے۔میڈیا کے ذریعے ہر بندے کے پاس وقت کی ہر خبر سب سے پہلے رسائی کرتی ہے۔

میڈیا اتنا تیز ہو گیا ہے جیسے ہی کوئی واقعہ، حادثہ،مُلکی حالات،مُلکی سرحدوں کے حالات و واقعات،اقوامی اور بین الاقوامی سطح کے حالات و واقعات،سیاسی پیشرفت، کھیلوں اور تفریحی دنیا اور دیگر خبروں کی معلومات ہر فرد تک لمحہ بہ لمحہ لوگوں تک فوراً پہنچ جاتی ہیں چاہے بندہ دنیا کے جس کونے میں کیوں نہ ہو۔یہ تمام تر تبدیلی صرف اور صرف جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کی آزادی کی وجہ سے ہوئی۔

میڈیا نے ہماری طرزِ زندگی اندازِ زندگی کو بلکل تبدیل کر دیا ہے۔جہاں لوگوں کو کافی دن انتظار کرنا پڑتا تھا اپنا پیغام دوسرے بندے تک پہنچانے میں وہاں اب صرف چند لمحے لگتے اور پیغام نہ صرف دوسرے بندے تک پہنچ جاتا بلکہ اُس پیغام کا جواب بھی آ جاتا۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ کسی چیز کو اگر حد سے زیادہ آزادی دی جائے تو وہ اپنی حد کھو دیتی ہے۔

اسی طرح میڈیا بھی آہستہ آہستہ اپنی حد کھو رہا ہے۔جہاں ماضی میں میڈیا کا ہر نمائندہ ایمان داری سے کام کرتا تھا سچ اور صداقت کی آواز اٹھاتا تھا ہر لکھاری اپنی قلم کے ذریعے معاشرے کے ہر پہلو کو سچائی کے سنہرے الفاظوں سے لکھتا تھا وہاں آج اسی ادارے کے بہت سارے لکھاری، نمائندے، تجزیہ کار اور انکرز نے اپنی صداقت کو نوٹوں کے حوض بیچ دیا ہے۔

میڈیا اتنا آزاد ہو گیا ہے کوئی بھی پارٹی کا نمائندہ/صدر/چیئرمین کسی بھی میڈیا نمائندہ (تجزیہ کار،رپوٹر،اینکر)کو خرید سکتا ہے اور وہ اُس کے دیے ہوئے الفاظ بولنے شروع ھو جاتا ھے۔ جس کی وجہ سے عوام تک صحیح حقائق نہیں پہنچ سکتے۔عوام حقیقت کو جانیے سے محروم رہ جاتی ہے۔یہاں تک کہ یہ ضمیر اور ایمان کو خریدو فروخت کا کاروبار اب پورے کے پورے میڈیا چینل تک پہنچ گیا ہے۔

پورا کا پورا چینل ایک اقتدار میں آیا شخص خرید لیتا ہے پھر چینل کا مالک اس کے کہے ہوئے الفاظ نمائندوں کے ذریعے نشر کرتا ہے۔اسی طرح پرنٹ میڈیا میں بھی یہی سلسلہ کار شروع ہے وہاں بھی مُلک کے معروف کالم نگار لکھاری کسی ایک پارٹی جماعت یا سیاستدان کو سپورٹ اور اُن کے حق میں آواز اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب بات آتی ہے سوشل میڈیا کی آزادی کی۔

یہ کہنا بالکل غلط نا ہو گا کہ آج کل کی نوجوان نسل کو کسی خبر کا علم باقی میڈیا کے ذرائع سے کم سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ ھوتا ہے۔ہم سوشل میڈیا پر اتنا انحصار کرنے لگ گئے ہیں کہ جھوٹی خبر میں بھی ہمیں صداقت نظر آتی ہے۔سوشل میڈیا میں اتنی زیادہ ایپس آ گئی ہیں کہ اس نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دِیا ہے۔فحاشی کی انتہا اسی سوشل میڈیا کی ایپس کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔


جیسے کہ میڈیا معاشرے میں ایک دوسرے سے رابطے جوڑنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔تو اس کو اسی طرح پاک صاف ہونا چاہئے جیسے کہ ہمارے بزرگ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے تو ان کی نیت دل اور زبان صاف ہوتی تھی۔اسی لیے ماضی کے لوگوں میں خلوص ھوتا تھا آج ھم میڈیا پر انحصار کرتے ہیں جو کہ اکثر جھوٹی اور فروخت ہوئی خبر دیکھتا اور شائع کرتا ہے اس لیے ہمارے معاملات اور تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ۔


صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جہاں اگر کوئی دشمن گردن پر تلوار رکھ کر کہے یہ جھوٹی خبر نشر کرو تو تب بھی اُس پر فرض ھو گا کہ وہ صداقت اور سچائی کو لکھنے یا بولنے کا انتخاب کرے۔پھر کیوں ہمارے مُلک میں چند صحافی پیسے کی خاطر اپنے اس فرض کو بیچ دیتے ہیں۔کیوں لوگوں کو گمراہ کر رہے۔کیوں لوگوں تک حقائق نہیں پہنچاتے۔کیوں اپنے ضمیر کا سودا کر رہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :