"وہ وعدہ ہی کیا جو وفا نہ ہو سکے۔۔۔"

جمعرات 28 جنوری 2021

Irfan Sher

عرفان شیر

میرا سوہنا پاکستان تقریباً ساڑھے تہتر سال کا ھو گیا ھے۔اس کا خواب دیکھنے اور پھر اُس خواب کو تکمیل تک پہنچانے میں لازوال قربانیاں اور دستانے شامل ہیں۔اس ارض پاک کو بنانے اور حاصل کرنے کا بنیادی مقصد تھا ہر انسان چاہئے اس کا تعلق کسی ہی صوبے سے ہو  کسی ہی مذہب کسی ہی ذات و نسل سے ہو کسی ہی خاندان سے ہو وہ انسان اپنی زندگی اپنے عقیدے اپنے مذہب اور رھن سہن کے مطابق آزادی سے گزار سکے۔

ہر شخص اپنی زندگی اپنے خیالات کے مطابق گزارنے کے لئے آزاد ہو گا۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو بدقسمتی کہہ لے یا پھر انگریزوں یا ہندوؤں کی نا منصفانہ تقسیم کہہ لے پاکستان کے پاس اتنے نا ہی وسائل تھے نا ہی اتنی تجربہ کار ٹیم جو پاکستان کی بنیادی پوزیشن کو صحیح طرح سنبھال سکے۔

(جاری ہے)


قائد اعظم کی وفات کے بعد مُلک پاکستان کی بنیادی سیاست بغاوت پر اُتر آئی۔

اسی بغاوت کی وجہ سے ملک پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو شہید کر دیا گیا۔پاکستان کی تاریخ میں بہت سی سیول حکومتیں آئی۔اور بہت سے ڈکٹیٹرز نے مارشل لاء لگا کر پاکستان پر حکمرانی کی۔ہر نئی آنے والی حکومت پاکستان کی حالت اور تاریخ بدلے کے دعوے اور وعدے تو بہت کرتی رہیں لیکن کوئی وعدہ الیکشن کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد وفا نہیں ہو سکا۔

پاکستان کسی ایسے لیڈر کا آج بھی منتظر ہے جو اُس کو بنیادی حقوق دے سکے۔
اس کی وجوہات تو بہت سی ہیں۔الیکشن سے پہلے ہر سیاسی پارٹی کا نمائندہ یا کارکن اپنے قائد کی زبان بولتا ہے جو کہ صرف جھوٹ کی بنیاد پر ھوتی ہے۔ہر کارکن اقتدار میں آ کر صرف کرسی کے مزے لینا چاہتا ہے۔عوام بھی ان کے دکھائے ہوئے سبز باغ میں آرام سے آجاتی ہے۔ ہر سیاست دان اپنی مخالف پارٹی کے رکن کو نیچا دکھانے اور اُس سے اقتدار لینے کے لئے یہ سب ڈھونگ رچاتا ہے۔

سیاسی نعرہ بازی اور ایک دوسرے پر گالم گلوچ کو تو ہر سیاست دان نے اپنا شوا ہی بنا لیا ہے۔اکثر ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اگر کوئی سیاست دان کسی پارٹی کا ٹکٹ لے کر اقتدار میں آ جائے تو اگلے الیکشن میں وہی سیاست دان اس پارٹی کا ٹکٹ لیتا ہے جس کی پوزیشن مستحکم ہو۔
ہم انسان آج کے دور میں دوسرے پر اتنا انحصار کرنے لگ گئے ہیں کہ کوئی کام ھم نے خود سے کرنا ہی نہیں دوسرے پر چھوڑ دینا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر مجودہ حکومت سے شکوہ ہی رہا ہے۔
یہی وجہ ہے باکستان کی صورتحال دن با دن پستی کی طرف جا رہی ہے۔پاکستان کا ایجوکیشن سسٹم،اداروں کی ساخت، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹیشن،پی آئی اے، انڈسٹریز وغیرہ سب زوال کا شکار ہو گیا ہیں۔ ہر آنے والی حکومت الیکشن سے پہلے اِن مسئلے مسائل کو ٹھیک کرنے میں دعوے تو کرتی ھے لیکن الیکشن کے بعد یہ دعوے صرف دعوے اور جھوٹے حقائق نظر آتے ہیں۔

حکومت میں آنے والا ہر نمائندہ اپنے دور کے آغاز میں اِس سسٹم کو ٹھیک نا ہونے کی وجہ ماضی کی حکومتوں کی نالائقی یا پھر اُن کی کرپشن پر ڈال دیتا ہے۔جبکہ اسی حکومت میں وہی وزیر اور مشیر ہوتے ہیں جو کہ ماضی کی حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے عوام آدمی کی زندگی کا خیال رکھنے کی بات کی جاتی ہے لیکن  الیکشن کے بعد خیال تو دور کی بات عام آدمی کی زندگی کی بات تک نہیں کی جاتی۔

وعدے تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن اُن وعدہ کو حقیقت تک کوئی نہیں پہنچاتا۔ہر سیاست دان ان وعدہ کو عوام کی کمزوری سمجھ کر ناجائز استعمال کرتے ہیں۔
ایک تجربہ کے مطابق پاکستان میں ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ اس بات پر کیا جاتا کہ امید وار کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آیا یہ امید وار ہماری توقعات پر پورا اترے گا یا نہیں۔یا یہ اسمبلی کا میمبر بنے کا قابل ہے کہ نہیں۔

دوسری رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام ووٹ پر مہر اس بنیاد پر بھی لگاتی ہے کہ اس میمبر کے کیا آباؤ اجداد کا تعلق بھی سیاست سے تھا۔اگر سیاست سے تعلق ھوتا ھے تو اُنہیں پھر اپنا نمائندہ منتخب کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی۔کیوں کہ ایک تعلق قائم ہو جاتا ھے ایک پارٹی کے میمبر کا اپنی عوام سے۔ اسی تعلق کی بنا پر ہر فرد بہت سی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے اپنے حلقے کے اُمید وار سے۔

لیکن افسوس عوام کا منتخب نمائندہ اُن کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عوام میں یہ کہنا بلکل غلط نا ہو گا کہ اُن میں سیاست کا شعور بلکل نہیں ہے جِس انسان کو جِس سیاست دان کی میٹھی باتیں اچھی لگتی انسان اپنا رہنما اُسے مان اور چن لیتا ہے۔جو کوئی امید وار کوئی ٹرک کی بتی ثابت ہوتا ہے عوام اسی کو رہنما بنا کر اس ٹرک کی بتی کا پیچھا کرنا شروع ہو جاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ٹرک کی بتی چند محدود لمحوں کے لئے ھوتی ہے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ھوتی ھے جب اسے اپنا مقصد پورا ھوتا نظر آئے وہ بتی خود با خود مدم اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔

اور عام آدمی جسے اپنا رہنما سمجھ رہا ھوتا وہ تو صرف دھوکہ نکلتا ہے اور کچھ نہیں۔یہی وجہ ہے جو وعدے ہمارا سیاست دان سیاست سے پہلے کرتا ہے وہ وعدے حکومت میں آنے کے بعد وفا نہیں ہو سکتے
یہ حقیقت اور سچائی ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو ایسے بہت سے لوگوں کی ضرورت ھے جو نا صرف اس سے کیے ہوا وعدے یاد رکھے بلکہ اسے وفاؤں کی سرحدوں تک بھی پہنچائے۔
خدا کرے میرے ارض پاک پر اترے وہ فصل گل
جسےاندیشہء زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :