شیر کشمیر بمقابلہ شیر پاکستان ۔ قسط نمبر1

جمعرات 26 اکتوبر 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

سرینگرشہرکے غنڈوں اور لوفر لفنگوں نے حکومتی ایماء پر اپنے لیڈر شیخ عبداللہ کو میر واعظ کے مقابلے پر اکسایا اور اُسے شیر کشمیر کا خطاب دیا۔ احسان فراموش عبداللہ میر واعظ گھرانے کا ادنیٰ غلام تھا ۔ اسی گھرانے نے آستین کے سانپ کو پالا پوسہ ، تعلیم دلوائی اور پھر سکول ماسٹر بھرتی کروا دیا۔ یادر ہے کہ میر واعظ گھرانے کی علمی اور روحانی حیثیت اور مقبولیت کی وجہ سے ہندو اور مسلمان یکساں ان کی عزت کرتے اور ان کی ہر خواہش کو حکم سمجھ کر تسلیم کرتے تھے۔

شیخ عبداللہ تعلیم سے فارغ ہوا تو میر وا عظ کی سفارش پرشیخ عبداللہ کو سکول ماسٹر کی نوکری پر فائز کیا گیا۔ میراوعظ کا خیال تھا کہ بحیثیت سائنس ٹیچر وہ مسلمان طلبا کو جدید تعلیم سے آراستہ کریگا تو مسلمان طلبا کو مستقبل سنوارنے کا اچھا موقع میسر آئیگا۔

(جاری ہے)


1922ءء میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کا جموں میں تیسری بار قیام عمل میں آیا تو جموں کے مسلم طلباء اور اُن کے ہم خیال لوگوں نے اٹھارہ سالہ ایف ایس سی کے طالب علم چوہدری غلام عباس کو اس ویلفیئر تنظیم کا صدر چن لیا ۔

چوہدری غلام عباس نے اپنے دوستوں کی مدد سے اس تنظیم کا دائرہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان تک پھیلا دیا ۔ بنگال ، بہار ، دہلی ، لاہور اور کابل سے علماء اور اساتذہ اس تنظیم کے جلسوں میں شریک ہونے لگے تو ڈو گرہ راج کے مضبوط قلعے کی دیوار تھرتھرانے لگیں۔
میرپور اور پونچھ میں ایسوسی ایشن کے دفاتر کام کرنے لگے تو موقع پرست غدار عبداللہ اپنے محسن میراوعظ سے اجازت لیکر جموں آیا۔

عبداللہ نے چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر سے تفصیلی ملاقات کی اور سرینگر جا کر ایسوسی ایشن کا پلیٹ فارم قائم کیا۔ ینگ مینز ایسوسی ایشن کی مقبولیت دیکھ کر حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کردیں اور نوجوان قیادت کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور مراعات کا بھی لالچ دیا مگرمن کے سچے اور دھن کے پکے ان مجاہدوں پر کسی لالچ ، خوف، حرص وہوس کا ذرہ بھر اثر نہ ہوا۔

عبداللہ نے سرینگر جاکر میر واعظ کی ایماء پر جلسے کا اانتظام کیا تو ساری وادی کے مسلمان امڈکر جلسہ گاہ میں پہنچ گئے ۔عبداللہ کو اس جلسے کی پاداش میں نوکری سے نکال دیا گیا تو میر واعظ خاندان نے عبداللہ کی ڈھارس بندھائی اور میر واعظ خاندان سے متعلقہ کاروباری لوگوں نے عبداللہ کو وافر مقدار میں فنڈز مہیا کیے اور اسے معاشی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔

پانچ ماہ کی ریاضت نے عبداللہ کو وادی کشمیر کے مسلمانوں کا مسلمہ لیڈر بنا دیا تو احسان فراموش عبداللہ نے ڈوگرہ اور انگریز حکومت سے ہی نہیں بلکہ سرحدی گاندی باچاخان ، نہرو ، عبدالصمد اچکزئی ، سردار پیٹل اور دیگر کانگریسوں سے خفیہ رابطہ قائم کر لیے ۔ عبداللہ نے سرینگر کے غنڈہ عناصر کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور میر واعظم خاندان کی توہین و تضحیک کا سلسلہ شروع کر دیا۔

انہیں غنڈوں نے شیر اور بکرا کی اصطلاح گھڑلی اور غدار عبداللہ کو شیر کشمیر کا لقب دیا۔
چوہدری غلام عباس ، اے آر ساغر اور اکابرین جموں نے صلح کی کوشش کی تو عبداللہ ہٹ دھرمی اور بد کلامی پر اُتر آیا ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میر واعظ خاندان نے عبداللہ جیسے نمک حرام سے مقابلہ اپنی توہین سمجھتے ہوئے میدان خالی کر دیا ۔ بہت جلد عبداللہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ۔

عبداللہ کی غلط فہمی جلددور ہوگئی چونکہ میر واعظ کے مریدین اور متعلقین نے عبداللہ اور اُس کے غنڈہ صفت گروہ سے تعلق توڑ لیا۔ علاوہ اس کے جموں ، پونچھ اور میرپور کے عوا م نے بھی عبداللہ سے نفرت کا اظہار کیا تو عبداللہ کو معاشی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر یہ بحران عارضی تھا ۔ شاطر عبداللہ کسی بھی لحاظ سے رئیس الامنافیقین عبداللہ بن ابی ّسے کم نہ تھا۔

محسن کشی ، غداری ، چکمہ بازی ، چرب زبانی ، بد کلامی اور بد عہدی گویا اس کے خون میں حلو ل کر چکی تھی۔ شیخ عبداللہ کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک لاکھوں کشمیری شہید کر دیے گئے ، لاکھوں بچے یتیم اور لاکھوں عورتیں بے سہارہ ہوگئیں۔ آج سرینگر سمیت وادی کشمیر کا کوئی ایساگھر نہیں جس میں آدھے سے زیادہ افراد معذور نہ ہوں مگر عبداللہ کے جانشین عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یہ لوگ خدا کے وجود کے بھی منکر ہیں ۔ کبھی کانگریس اور کبھی بی جے پی کا ڈھول گلے میں ڈالے بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگاتے اپنے ہی ہم وطنوں کے خون کا سودہ کرتے اقتدار پر براجمان رہتے ہیں۔ عبداللہ کے بعد مفتی گھرانہ اور دیگر ہم خیال سیاسی جماعتیں تو اپنی جگہ مگر مقبوضہ پونچھ اور ملحقہ جموں کے عوام بھی بھارتی مراعات کے بدلے میں عزت و آزادی کا سودا کر بیٹھے ہیں۔


غدار عبداللہ نے پہلے میر واعظ خاندان پر اپنی شیطانی چالوں سے غلبہ حاصل کیا اور پھر اپنے لاہور ی اور قادیانی رشتہ داروں کی ایماء پر مسلم لیگ اور حضرت قائداعظم  کی ذات پر رکیک حملے کیے ۔ عبداللہ مسلک و مذہب کے لحاظ سے قادیاتی تھا مگر تکیہ کیے ہوئے تھا ۔ تکیہ کا مطلب اپنی اصلیت چھپانا اور ھمفرے کی طرح مسلمانوں کو باہم تقیسم کرنا ، فتنہ و فساد برپا کرنا اور بظاہر غمخوار بن کر اسلامی ریاست کو تباہ کرنا ہے۔

منافق عبداللہ بن ابی ّ،مختار ، طاہر ،ا بن سبا ، میر جعفر ، میر صادق ، شیخ عبداللہ اور دیگر درجنوں نام اسلام کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ھمفرے اور لارنس آف عربیہ کے کردار بھی تاریخ کا حصہ ہیں مگر اصل مجرم وہ مسلمان ہیں جو مادی لالچ اور ہوس اقتدار کے حصول کی خاطر ان لوگوں کے آلہ کار بنے ۔ منافقت اور شیطانی سیاست کا یہ سلسلہ تخلیق آدم سے شروع ہوا جو تاحال جاری ہے اور تاقیام قیامت جاری رہیگا ۔

جب تک مسلمان قرآن پاک ، حدیث رسول ﷺ اور سنت رسول ﷺ کو اپنا مقصد اور محور نہیں بناتے ، اپنی سوچ و فکر کو قرآنی علوم کی روشنی میں نہیں ڈھالتے وہ چانکیائی اور میکاولین سیاست اور شیطانی ، استدراجی قوتوں کے سامنے بے بس اور مجبور ہو کر غلامانہ زندگی گزارتے رہے گئے۔
آج وہ کشمیر ی جو غدار عبداللہ کے ہمنوا تھے اُن کی نسلیں اپنے اجداد کے اعمال کی سزا بھگت رہی ہیں ۔

غدار عبداللہ کی خود نوشت آتش چنار اُس کے غلاما نہ کانگریسی ذہن ،بزدلانہ سیاست اور مکارانہ کردار کی عکاس ہے۔ عبداللہ کی سیاست کانگریس کی غلامی اور کشمیری قوم کو چکمہ دیکر باہمی تقسیم کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ عبداللہ نے چھ ماہ کے عرصہ میں ینگ مینز ایسوسی ایشی جیسی مضبوط تنظیم کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے غنڈہ عناصرکو اکھٹا کیا اور اپنے محسن میر واعظ کے خلاف بہودگی اور بد کلامی کا محاذ کھول دیا ۔

ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں وکشمیر مسلم کانفرنس میں تبدیل ہوئی تو عبداللہ اسکا پہلا صدر منتخب ہوا ۔ اکابرین نے عبداللہ کو یہ ذمہ داری اس لیے دی تاکہ وہ اپنی روش بدل کر اسلامیان کشمیر کے دکھوں کا مداو کرنے کی کوشش کرے اور فتنہ و فساد سے باز رہے ۔مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ اسی دور میں میرپور اور راجوری میں عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک چلی تو ڈوگرہ فوج کے علاوہ برٹش انڈین حکومت نے ظالم مہاراجہ کی مدد کے لیے رائل سکاٹش انفٹری رجمنٹ کی دو گورا بٹالین بھجوائیں ۔

گوروں اور ڈوگروں نے ملکر میرپور اور راجوری میں قتل عام کیا ۔ صرف میرپور میں ایک ہزار مسلمان شہید اور دس ہزار زخمی ہوئے۔ ہزراوں گھر مسمار کر دیے گئے ۔ بیشمار لوگ ہجرت کر کے جہلم ، چکوال اور گردونواں کے جنگلوں اور ویرانوں میں جا چھپے مگر سوائے اہلیان جموں کے پونچھ اور کشمیر سے اس ظلم و بربریت کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی ۔ یہ وہ دور تھا جب عبداللہ کا جادو پونچھ اور وادی کشمیر پر اثر کر چکا تھا۔

میرپور اور راجوری میں تحریک وزیراعظم ہری کرشن کول کے ایجنٹ جیون لعل منٹو کی ایماء پر شروع ہوئی اور ہر ی کرشن نے مہاراجہ کو فوج کشی کا مشورہ دیکر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر لطف اُٹھایا۔ اس تحریک کے دوران غدار عبداللہ نے دوبارہ ہری کرشن کول سے ملاقات کی اور بظاہر امن کا پیغام دیا۔
سرینگر جیل کا خونی واقعہ ہو یا جموں میں مسلم کش فسادات ،عبداللہ نے ہمیشہ گرفتاری کا کھیل کھیلا اور چند یوم کی اسیری کے بعد معافی نامہ دیکر رخصت لے لی ۔

مکار عبداللہ کی چکمہ بازیوں کے باوجود وادی کشمیر کے لوگوں نے آنکھ نہ کھولی او رلومڑی صفت عبداللہ کو شیر کشمیر بنا کراس درندے کو خون جگر پلاتے رہے۔ غدار عبداللہ کے لاہوری اوریورپی رشتہ داروں کے علاوہ اس کی بیوی کے پہلے شوہر کرنل ٹی ای لارنس عرف لارنس آف عربیہ عرف پیرکرم شاہ کا پھیلایا ہوا خفیہ جال ، برٹش انڈین حکومت، کانگریس ، لاہوری قادیانی گروپ کے علاوہ خان عبدالغفار خان ، عبدالصمد اچکزئی اور دیگر کمیونسٹ اور سوشلسٹ اس وطن فروش قومی مجرم کی پشت پر کھڑے تھے۔


مسلم کانفرنس اور تحریک حقوق عوام اپنے عروج پر پہنچی تو 1938 ء کے عام انتخابات میں مسلم کانفرنس نے 21نشتیں جیت لیں مگر مہاراجہ نے نامزد نشتوں کا کوٹہ بڑھا کر مسلم کانفرنس کی اکثریت ختم کر دی۔ رہی سہی کسر وادی کشمیر کی دو سیٹوں نے پوری کر دی جنہیں عبداللہ کی حمایت حاصل تھی۔ انتخابات کے بعد عبداللہ نے وزیراعظم گوپالا سوامی آینگر سے سابق وزیراعظم کرنل کالون اور وزیر ریاست وجاہیت حسین کی مشاورت سے خفیہ ملاقات کی۔

رازافشاں ہوا تو عبداللہ نے گلانسی کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد اور 99فیصد مسلمان آباد ی کے حقوق بحال کرانے کا بہانہ تراش لیا۔ کرنل کالون کے بعد درمیانی عرصہ کے لیے نواب خسرو جنگ بھی قائم مقام وزیراعظم بنے۔ نواب صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ کرنل کالون برٹش انڈین سروس کا افسر تھا جیسے وزارت عظمیٰ پر ایک بڑے مقصد کے لیے فائز کروایا گیا ۔

کالون نے ایک طرف جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو عارضی دلاسہ دیے رکھا اور دوسر ی جانب مہاراجہ پر مسلسل دباؤ ڈال کر گلگت اور بلتستان پر حکومت انگلیشیہ کی اجارہ داری کا پروانہ حاصل کر لیا۔ چترال ، سوات اور دیر کی ریاستیں پہلے ہی انگریزی عمل داری قبول کر چکی تھیں اور مظفرآباد کی پہاڑی ریاست راجگان کی باہمی کشمکش کی نذر ہو چکی تھی۔ہزاہ اور پکھلی پر بھی راجگان کا کنٹرول ختم ہو چکا تھا اور مہاراجہ کشمیر نے یہ علاقے بھی انگریز حکومت کو منتقل کر دیے تھے۔


مسلم کانفرنس کی مقبولیت دیکھ کر انگریز سرکار نے مہاراجہ کو مزید خوفزدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کانگریس کے پٹھو عبداللہ کو وزارت عظمیٰ کا جھانسہ دیکر اسے ساتھ ملا لیا۔ لاہور میں مقیم عبداللہ کے ہم زلف ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض اور روس نواز کیمونسٹ ٹولہ بھی کشمیری مسلمانوں کے بجائے عبداللہ کے لیے راہ ہموار کر رہا تھا۔
علاوہ ان کے پونچھ سے تعلق رکھنے والے مفتی ضیاء الدین بھی عبداللہ کے غمخوار تھے اور پونچھ کے گوجر قبیلے کی عبداللہ کے لیے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔

شیخ عبداللہ کی ساس میر جان کا تعلق گلمرگ کے گوجر قبیلے سے تھا جو گلمرگ کے کسی ہوٹل میں دودھ فروخت کرتی تھی جہاں ہیر ی نیڈو سیاحت کی غرض سے ٹھہرا ہوا تھا۔ میر جان کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے ہیری گوالن کے قدموں پر ڈھیر ہوگیا ۔ میر جان نے عشق بازی کو مسترد کر دیااور شادی پرراضی ہوگی۔
میرجان نے شادی کے لیے روپے پیسے کا نہیں بلکہ قبول اسلام کا مطالبہ کیا تو ہیری نیڈو نے مفتی ضیاء الدین کے ہاتھ اسلام قبول کیا جو پونچھ اور ملحقہ ڈھوکوں میں بسنے والے گجروں کے معلم اور پیر تھے۔

قبول اسلام کے بعدہیری نیڈو کا اسلامی نا م شیخ احمد حسین رکھا گیا اور وہ اسی نام پر دنیا سے رخصت ہوا۔ شیخ احمد اور میر جان کے ہاں بارہ بچے پیدا ہوئے جن میں چار بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ میر جان کی ایک بیٹی اکبر جہاں نے پہلی شادی انگریز مسٹر کرنل ٹی ای لارنس سے کی جو پیر کرم شاہ کے خفیہ نام پر نیڈو ہوٹل لاہور میں ٹھہراہوا تھا۔ یہ شادی محبت کی تھی جو کچھ ماہ بعد ختم ہوگئی ۔

کرنل لارنس وہی شخص تھا جسے لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ لارنس کا لاہور آنے کا مقصد کابل اور کشمیر میں شورش برپا کروانا اور دونوں ممالک میں ایسے لوگوں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانا تھا جو برٹش راج کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے باجگزار حکمران بننے کو تیار ہوں۔ لارنس کے تیار کردہ منصوبے کے تحت گلگت اور بلتستان مہاراجہ کشمیر کے ہاتھ سے نکل گئے اور1929میں افغانستان کے امیرامان اللہ خان کا تختہ اُلٹ گیا۔


کرنل لارنس عرف لارنس آف عربیہ عرف پیر کرم شاہ کا بہروپ عیاں ہوا تو وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر پہلے سعودی عرب اور پھر انگلستان چلا گیا۔ اب لارنس کو اکبر جہاں کی اوربرٹش انڈین حکومت کو لارنس کی ضرورت نہ تھی۔ کشمیر کے لارنس عبداللہ کو مفتی ضیاء الدین کی مدد سے اکبر جہاں مل گی اور کانگریس اور برٹش انڈین حکومت کو غدار عبداللہ مل گیا۔


ولی ّکاشمیری کہتے ہیں کہ عبداللہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا تھا۔ وہ لومڑی جیسا چالاک اور مکار تھا اور شیر کی طرح خونخوار درندہ تھا۔ اُس نے ساری چالیں کشمیریوں پر آزمائیں مگر غلام قوم کو اپنے لٹنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
عبداللہ نے نہرو عبدالغفار خان ، عبدالصمد اچکزئی،مولانا آزاد، اکابرین دیوبند اور جماعت احمدیہ کے رہنماؤں کے مشورے سے مسلم کانفرنس کا نام نیشنل کانفرنس رکھنے کی تجویز دی تو چوہدری غلام عباس ، اے آر ساغر سمیت انیس ممبران نے اس کی مخالفت کی۔

غدار عبداللہ سے وجہ پوچھی گئی تو مکار نے کہا کہ مسلم کانفرنس کی وجہ سے دو فیصد ہندو واقلیت خوفزدہ ہے جن کی دلجوئی ضروری ہے۔ دوسری وجہ یہ بتائی کہ وزیراعظم آئینگر نے وعدہ کیا ہے کہ اگر جماعت کا نام بدل دیا جائے تو وہ گلانسی کمیشن رپورٹ پر عمل در آمد کو یقینی بنائے گا۔ تیسری وجہ مسلمانوں کو وزارتوں اور نوکریوں میں حصہ دینا اور مراعات میں اضافہ کرنا بتائی گئی ۔

چوہدری غلام عباس نے مکار عبداللہ کی تینوں باتیں رد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم آئینگر گلانسی کمیشن رپورٹ کو رد کرچکا ہے جسکا سرکاری نوٹیفکیشن بھی ہو چکا ہے اور اس رپورٹ کی تمام کاپیاں جلا دی گئی ہیں۔ دیگر مراعات کو ساغر نے دیوانے کا خواب قرار دیا تو مکار عبداللہ بدکلامی کرتے ہوئے مجلس سے الگ ہوگیا اور چند روز بعد اپنی جماعت نیشنل کانفرنس کا اعلان کر دیا ۔

وائسرائے ہند اور نہرو نے عبداللہ کو کشمیریوں کا حقیقی ترجمان قرار دیا اور جماعت احمدیہ سمیت دیگر نے مبارک باد کے پیغام بھجوائے ۔ مولانا آزاد، عبدالصمد اچکزئی ، عبدالغفار خان ، جماعت احمدیہ اور اکابرین دیوبند کے نمائندوں نے سرینگر کادورہ کیا تو نیشنل کانفرنس نے اُن کے اعزا ز میں دریائی جلوس نکلا۔ مکار عبداللہ اور اُسکے مہمان اُسوقت مصیبت میں گرفتار ہوئے جب اہلیان سرینگر نے اپنے گھروں سے غلاظت کے ٹوکرے اٹھا کر مہمانوں اور میز بانوں کے سروں پر انڈیل دیے۔ (جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :