
''سلیتے میں میخ نہ رکھیو''
منگل 21 ستمبر 2021
اسرار احمد راجہ
نوائے وقت نے جنرل کرامت کے استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت امیر خسرو کا شعر نقل کیا ،
(جاری ہے)
لفظ شیخ کے معنی وسیع ہیں یہ کوئی قوم یا قبیلہ نہیں بلکہ وصف اور پیشہ ہے۔ اسی طرح راجپوتی ایک وصف ہے۔ قوم یا قبیلہ نہیں فی زمانہ بہت سی قومیں اور قبیلے مفادات کے پیش نظر باہم ملکر ایک کارٹیل ، مافیا یا گروہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیںاور دیگر قبائل کے خلاف ہم آہنگ ہو کر برادری ازم ، قبائلی، علاقائی اور لسانی تعصب ، بغض، کینہ ، غیر اخلاقی ، غیر سماجی اور غیر انسانی رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے رویوں کے حامل اشخاص ریاست اور معاشرے کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ریاست اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے، اور معاشرہ بکھر کر قصہ ماضی بن جاتا ہے ۔ میرے نزدیک کشمیر کی غلامی اور کشمیریوں کی بدحالی میں ایسے رویوں کا بھی عمل دخل ہے۔ ایسی شخصیات کی ایک بڑی کھیپ کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور منشیات فروشی جیسے گھناونے کاروبار کی کمائی سے ارب پتی بن کر کشمیر کی سیاست کے مدارالمہام ہیں ۔ اور ان کی برادریاں اور قبیلے ان پر اس لیے فخر کرتے ہیں چونکہ انھوں نے حکومتی زور پر دیگر برادریوں اور قبیلوں کے نہ صرف حقوق چھین رکھے ہیں بلکہ انھیں غلاموں سے بھی بد تر سطح پر لا رکھا ہے۔ جس خطہ زمین یا ریاست پر ایسے پست ذھن اور جرائم پیشہ حکمران ہوں وہاں آذادی اور انسانیت کی بات کرنا مخلوق خدا اور الہٰی احکامات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
کشمیر کی غلامی کی تاریخ گواہ ہے کہ پانچ سو سالہ مسلسل غلامی کی بنیاد فرقہ واریت، قبائلی تعصب، برادری ازم، نفرت اور ذہنی و اخلاقی پستی پر استوارکی گئی۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں،
خدمت یک سگ نہ از آدم کم زاد را
فرمان الہٰی ہے کہ مخلوق میرا کنبہ ہے۔ پھر فرمایا قتل سے فساد ذیادہ بدتر اور گھنائوناں جرم ہے۔ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کا قتل کیا۔ جس نے کسی کی ایک انچ زمین پر ناجائز قبضہ کیا گویا اس نے ساری دنیا کی زمین پر قبضہ کیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان اور آزادکشمیر ایسے قاتلوں اور مجرموں کی آماجگاہ ہے۔ کارٹل، مافیا اور قاتل سیاست اور حکومت پر قابض ہیں اور ان کے ہمنوا ایسے گھناونے کرداروں کے ترجمان ہیں ۔ میں نے اپنی مشروح تحریر میں گوتی تاریخ کا احوال اپنی جانب سے نہیں بلکہ مصنفین اور محقیقین کے حوالوں سے کیا تھا۔ گزشتہ تحریر کا مقصد ابن خلدون کے فلسفہ عصبیت کی بنیاد پر یہ کہنا مقصود تھا کہ جب تک عام لوگ خاندانی عصبیت کی پہچان نہ کر پائیگے تو وہ برادری ازم ، تعصب و نفرت کی دلدل میں پھنسے رہنگے۔ فرمان ہے کہ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ فلسفہ عصبیت کی بنیاد اسی فرمان پر رکھی گئی ہے اور عصبیت کا مطلب تعصب نہیں بلکہ قبائلی ، خاندانی اور نسلی اوصاف کی پہچان ہے۔ فرمایا اے لوگو میں نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ۔ پھر فرمایا تمھارے قبیلے ، خاندان اور برادریاںرکھیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اسلام کے اس عالمگیر پیغام کے ضمن میں علمائے حق ، اولیائے کاملین نے ضیغیم کتابیں لکھیں تاکہ انسان تعصب ، بخل اور شیطانی حربوں سے محفوظ ہو کر انسانیت اور آدمیت کے معیار پر قائم رہے۔ حدیث نبوی ہے کہ میری امت ایک دیوار کی مانند ہے اس کی ہر اینٹ دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسانیت کی بنیاد اخوت، محبت اور بھائی چارے پر قائم ہے۔ ان اصولوں کی روح تقوٰی و پرہیز گاری ہے، نہ کہ جاہلیت اور ریاکاری۔ میرے گزشتہ مضمون کے ماخذ سر لیپل گریفن، سٹائن، محمد دین فوق، میرپور سے ہی تعلق رکھنے والے مولوی عبداللہ فرشی، راجہ خضر اقبال مصنف کتاب ''علاقہ کھڑی، تہذیب و ثقافت کے تناظر میں'' چوہدری غلام عباس مصنف ''کشمکش '' تاریخ رشیدی از مرزا حیدر دوغلات ، تاریخ بڈشاہی، تاریخ شاہ میری اور انوار ایوب راجہ کی تحریر ''ڈومیلی'' ہیں۔ گلاب نامہ ، پنج پیارے پیجاب دے، چج نامہ ، تاریخ خالصہ اور سکھوں کے عروج و زوال کی داستان از میجر شمشیر سنگھ چوہان اور دیگر تحریروں سے بھی میرپور کی تاریخ، قبائل اور ان کی گوتوں اور ذاتوں کے حوالے ملتے ہیں۔
ان تاریخی حوالہ جات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ راجہ پورس کا دارالخلافہ پاٹی کوٹی منگلا سے لیکر منڈی بہاالدین تک پھیلا ہوا تھا۔ منگلہ قلعے کی جگہ پر راجہ پورس کی بیٹی منگلا دیوی کا محل تھا اور وہ بروز منگل عام لوگوں کے درشن کیلیے باہر آتی تھی اور لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ خطہ میرپور کے قدیم ترین باشندگان گھکھڑ یا ککڑ ہیں جو کیانی بھی کہلاتے ہیں۔ تاریخ کے مطابق یہ قبیلہ پانچ سو سال قبل مسیح میں بھی یہاں ہی آباد تھااور حکمران حیثیت رکھتا تھا۔ زین العابدین بڈھ شاہ نے بھی ان کی جاگیر بحال رکھی جو موجودہ ضلع میرپور، بھمبھر اور گجرات پر مشتمل تھی۔
آخری چک حکمران یعقوب شاہ شک گھکھڑ وں کے حکمران کمال خان گھکھڑ کا داماد تھا۔ مغلوں نے بھی گھکھڑوں سے اچھے تعلقات قائم کئے۔ شہنشاہ جہانگیر کی ایک بیوی گھکھڑ قبیلے سے تھی۔ بعد کے دور میں میرپور گجرات کی تحصیل تھی جبکہ پونچھ ضلع لاہور کی تحصیل تھی۔ سردار ابراہیم خان نے بھی اپنی کتاب کشمیر ساگا میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ آئین اکبری اور ہمایوں نامہ میں بھی میرپور کے قبائل کا احوال ہے جب اس کا نام میرپور نہ تھا۔ میرپور راجہ میر خان کے نام سے منسوب ہے جو پہلا مسلمان گھکھڑ حکمران تھا۔ میرپور کے قبائل میں سوائے راجگان کے کسی قبیلے یا برادری کا ذکر تواریخ میں نہیں۔ عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم سب اپنی اصل عصبیت اور انسانی معیار کی طرف لوٹ آئیں اور علمی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔
حضرت امیر خسرو کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسیات ایک صنعت ہے کوئی پیشہ نہیں جبکہ عسکریت ایک پیشہ ہے جس کی بنیاد خاندانی اوصاف اور عصبیت پر رکھی گئی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اسرار احمد راجہ کے کالمز
-
کینہ پروری کا دور
منگل 15 فروری 2022
-
قوم کو مبارک ہو
جمعرات 3 فروری 2022
-
سیالکوٹ کے مومن
منگل 4 جنوری 2022
-
زندہ رہنا ہے تو ڈر کر رہو
بدھ 8 دسمبر 2021
-
اقتدار کی خاموشیاں
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
آتش فشاں کے دھانے پر
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
''سلیتے میں میخ نہ رکھیو''
منگل 21 ستمبر 2021
-
پاکستان میں غداری کے سرٹیفکیٹ
پیر 18 مئی 2020
اسرار احمد راجہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.