کینہ پروری کا دور

منگل 15 فروری 2022

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

دو دن اسی سوچ میں گزر گئے کہ اس تحریر کو آخر نام کیا دیا جائے۔پھر سوچا کچھ اور لکھتے ہیں چونکہ لکھنا تو ہے۔  انڈو پیسفک ، یوکرائن ، مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے حالات ،افغانستان میںطالبان حکومت کے ساری دنیا کے ممالک سے خفیہ رابطے، پاکستان کے بدتر معاشی حالات، سیاسی عدم استحکام، قیادت کا بحران اور تاجرانہ سیاست، عالمی سطح پر بننے والے نئے اتحاد اور نتائج ، برصغیر پاک و ہند میں نئی تبدیلیوں کا آغاز، گریٹ گیم کے نئے کھلاڑی اور کھیل کا آغاز۔


بیان کردہ موضوعات میں ایک چیزمشترک محسوس ہوئی اور وہ ہے معاشی، معاشرتی ،سیاسی اوربین الاقوامی سطح پر کرونا سے بھی بد تر اور بے قابو کینہ پروری جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ کینہ پروری ایک ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔

(جاری ہے)

کینہ شیطان کی خصوصیت ہے جب انسان شیطان کا مکمل پیروکار ہو جائے تو اسے انسانوں سے نفرت اور عداوت کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔

ایسے لوگ جب کسی اعلی عہدے ،مرتبے  یا رتبے پر فائز ہو جائیں تو ان کی نفرت عداوت میں بدل جاتی ہے۔ جو معاشرے، ریاست اور عالمی سطح پر ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ و جدل کا باعث بنتے ہیں ۔ ہٹلر کی یہودیوں سے نفرت قتل و غارت گری کا باعث بنی جس کی بنیاد پر دوسری عالمی جنگ نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔


کینہ پرور انسان جاہل،ان پڑ ھ ،اجڑہو یاعالم فاضل ، سیاستدان یاحکمران ۔ایسے لوگ معاشرے اور ریاست میں فتور پیدا کرنے اور فساد برپا کرنے والے انسان نما حیوان ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق فرمان الہٰی ہے کہ ان کی مثال گدھے جیسی ہے ۔ جس پر کتابوں کابوجھ ڈال دیا گیا ہو۔ کینہ پرور انسان ہمیشہ شرو فساد کا باعث اور معاشرے کو تنزلی کا شکار کرنے والا حیوان ہوتاہے۔

ایسے لوگ جہاں بھی ہوں ان کے وجودسے کبھی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی ۔قرآن حکیم میں فرمان ہے کہ فتنہ قتل سے بھی بری چیز ہے ،آج معاشرے اور ریاست سے لے کر عالمی سطح پر فتنہ و فساد، ہوس و حرص، انسان کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل ،بے انصافی اور بداعتدالی کا دور ہے۔ دیکھا جائے تو اس کی بنیاد کینہ پروری ہی ہے۔ جس کا بظاہر کوئی علاج نہیں۔ آج کے جدید  دور میں سائنس نے جتنی ترقی کی ہے اتنی ہی تنزلی انسانی ذہن و قلب میںبھی رونما ہوئی ہے۔

ترقی یافتہ اقوام نے ساری دنیا کی معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے اور غریب و پسماندہ اقوام  عملاََغلامی کی  زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ہر ملک اور قوم ایک دوسرے سے نفرت اور کدورت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے چاہے وہ ملک اوراقوام ہم مذہب، ہم رنگ، ہم عقیدہ اور ہم مسلک ہی کیوں نہ ہوں۔ آج عالمی اقتصادی پابندیوں کا صرف امریکہ ہی کو  اختیارہے ۔جس کی وجہ عالمی معاشی اداروں پر  امریکی کنٹرول ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دیگر دنیا نے خودکفالت  اور خود انحصاری کی طرف توجہ ہی  نہیں کی  جس کی وجہ سے ترقی یافتہ اقوام بھی ایک حد سے تجاوز کرنے اور عالمی سطح پر آزاد خارجہ اور تجارتی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں رکھتیں۔
ہم زندگی کے جس شعبے پر نظر ڈالیں ہر طرف کینہ پروری کا عنصرغالب ہے۔ آزاد کشمیر ایک چھوٹی سی مگر باجگزاراور کسی حد تک نیم خودمختار ریاست ہے۔

ایک طرف مقبوضہ کشمیر ہے جس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے اور 2019 میں ایک ایکٹ کے تحت بھارت نے جس کی نیم غلامانہ اور نیم خود مختارانہ حیثیت بھی ختم کر دی ہے ۔بھارت نے یہ قدم انٹرنیشنل انویسٹرز کی ایما پر اٹھایا جس میں عرب ممالک  بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ابھی تک منظر پر تھوڑی دھند ہے مگر جلدہی یہ منظر بھی صاف ہونے والا ہے کہ اس کھاتے میں کچھ پاکستانی نودولتیے خاندان بھی شامل ہیں ۔


دنیا بھر کے کینہ پروروں اور متعصب افراد،  قبیلوں اور قوموں کا جائزہ لیا جائے تو مذہبی، علاقائی، قبیلائی اور شخصی لحاظ سے کشمیریوںکا نمبر پہلا ہے۔ کینہ پرورورں کی فہرست میں غدار شیخ عبداللہ سرفہرست ہے جس کی رعونت ،تکبر اور کم ظرفی کے نتیجے میں کشمیری قوم کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے حمایت یافتہ لیڈروں اور ورکروں نے بھارت کی گود میں آسودگی کی راہ نکالی اور بدلے میں قوم کو غلامی کی زنجیریں پہنا دی ۔

1947کا جہاد آزادی بھی کینہ پروری، تعصب اور بغض کی نذر ہوگیا ۔ہر کسی نے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لی اور اپنے اپنے قبیلوں، قوموں اور فرقوں سے لیڈر تلاش کر لیے۔ ایک طرف مجاہد اول دوسری طرف غازی ملت تھے اور تیسری طرف بھارت تھا۔ بھارت اور شیخ عبداللہ بتدریج آگے بڑھتے رہے اور غازیوں اور مجاہدوں میں نفرت اور کینہ پروری کی جنگ جاری رہی۔
بھٹو نے شملہ معاہدے کی آڑ میں مسئلہ کشمیر پر بڑا ٹرن لیااور سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں بدل کر آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی جبری حکومت اور برادری جمہوریت قائم کر دی۔

جمہوریت کا اپنا مزاج ہے۔ جن قوموں،  قبیلوں اوربرادریوں کی سوچ محدود مزاج میں کینہ و بغص ہو  وہاں جمہوریت کا مزاج نہ صرف امرانہ  بلکہ  ظالمانہ اور وحشیانہ ہو جاتا ہے۔ جمہو ریت میں ووٹ گنے جاتے ہیں ،عقل وخرد   کا پیمانہ نہیں دیکھا جاتا ۔تیسری دنیا کے ممالک میں ووٹ خریدے یا پھر غنڈا گردی کے ذریعے چھینے جاتے ہیں اگر پھر بھی کام نہ  چلے تو الیکشن کا  عملہ یا پھر ضلعی انتظامیہ مطلوبہ ووٹ پورے کر دیتی ہے۔

آزاد کشمیر میں ایسی ہی نام نہاد  آمرانہ جمہوریت ہے  جہاں غنڈے، قاتل ،سمگلر اور کرپشن کی کمائی سے پروان چڑھے معاشرے کے ناسور جمہوریت کے علمبردار اور تحریک آزادی کشمیر کے ترجمان ہیں۔
حضرت مولانا مودودی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ کردار کی سب سے اعلی تعریف حضرت قطب شہید رحمہ اللہ نے کی ہے۔قطب شہید نے لکھا ہے کہ کردار خوشبو ہے۔ باکردار شخص کے عمل کی خوشبومعاشرے اور ریاست کو معطر، معزز اور قوموں کو باعزت اور برتر مقام پر کھڑا کرتی ہے۔

  علامہ اقبال رحمتہ اللہ نے قائد اعظم رحمتہ ا للہ علیہ کے کردار اور قائدانہ صلاحیتوں کے متعلق لکھا۔
 نگاہ  بلند ، سخن  د لنواز،  جاں پر  سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
امام غزالی لکھتے ہیں کہ مٹی کی تین اقسام ہیں اول زرخیز ، دوئم کم زرخیز اور سوئم بنجر یابیکار۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں کہ انسانوں کی بھی تین ہی قسمیں ہیں۔

اول عاقل،عالم، ہمدردو غمگسار۔ دوئم  محنتی وجفاکش  اور سوئم حاسد، متکبر ، جاہل اوجڈ، کینہ پرور اور بے کار۔ تیسری قسم پر علم کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی انکی خو بدلتی ہے۔
 بدقسمتی سے آزاد کشمیر میں انسانوں کی خاردار فصل عام ہے جو بڑے بڑے عہدوں،رتبوں  اور علمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود کینہ پرور، متعصب ،مغرور اور برادری ازم کی بدبو سے بھرپور لطف اندوز ہونے پر مسرور رہتے ہیں ۔

ایسے کردار ملک کے اندر اور باہر اپنی اہمیت کا جاہلانہ مظاہرہ کرنے پر کبھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان پر کلامِ نرم ونازک کا کبھی اثر نہیں ہوتا۔ پست ذہنیت کے حامل اور اونچے ایوانوں میں بیٹھ کر بھی پستی و کم عقلی کا مظاہرہ نہ کریں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
اسلام کے دشمن مکہ کے نو سردار بڑے دانشور، بہادر اور عقل مند تھے مگر کینہ پروری اور بغض نے انہیں جہنم کا حقدار بنا دیا ۔

قرآن پاک میں ایسے لوگوں کی مثال ہانپنے والے کتوں سے دی گئی ہے۔ فرمایا کتے پربوجھ ڈالو یا نہ ڈالو وہ ہانپتا ہی رہے گا ۔چونکہ اس کی فطرت میں ہانپنا ہی ہے۔ قرآن پاک میں بلعم با عور کا ذکر ہے جسے کینہ پروری اور بغض نے ولایت کے درجے سے گرا دیا ۔تفسیر میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن اصحاب کہف کا کتابلعم با عور کی شکل میں  اور بلعم باور کتے کی شکل میں اٹھایاجائے گا ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صل وسلم نے فرمایا آج سے سارے خاندانی تکبر، فخر اور جہالت میرے قدموں کے نیچے۔کاش آذاد کشمیر کے عوام اور برادری ازم کے سرخیل خواب غفلت سے جاگ اٹھے ورنہ غلامی کے درجے سے گر کر انسانیت کا مقام بھی کھو بیٹھیں گے ۔
کاش کے تیرے دل میں اترجائے میری بات

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :