سیالکوٹ کے مومن

منگل 4 جنوری 2022

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

سیالکوٹ کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں سری لنکا کا شہری مینجر کی پوسٹ پر تعینات تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ شخص اعلی تعلیم یافتہ اور اپنے کام کا ماہر ہو گا اور اس کی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے فیکٹری مالکان نے اسے  فیکٹری مینجرتعینات کیا تھا ۔ فیکٹری مینجرکے ظالمانہ اور سفاکانہ قتل کے بعد سیالکوٹ کے پاکباز نمازیں اور مومن مجاہدین نے نہ صرف اس کی لاش پر پتھر ڈنڈے اور لوہے کے راڈ برسائے بلکہ دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اس غریب الوطن محنت کش کی لاش کو دیر تک سڑک پر گھسیٹا اور پھر نظر آتش کر دیا۔


 مقتول مینجر کے متعلق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق وہ ایک ایماندار ، فرض شناس، محنتی اور با اصول شخص تھا۔ شاید مولانا فضل الرحمان اور تحریک لبیک والوں کولفظ ایماندار شخص پسند نہ آئے چونکہ ان کے علاوہ باقی پاکستانیوں کا ایمان اور عقیدہ مشکوک ہے۔

(جاری ہے)

یہ صرف ان دو دینی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا بھی نظریہ ہے۔

میرے نزدیک انسان کسی بھی عقیدے یا مذہب کا پیروکار ہوں اگر وہ سچا محنتی رزق حلال کمانے والا ہے تو وہ ایماندار ہے۔ شاید ایمان کی یہ تشریح درست نہ ہو مگر یہ تو درست ہے کہ محنت کش اللہ کا دوست ہے ۔سری لنکن محنت کش کا جرم یہ تھا کہ وہ کام چور نہ تھا، اور وقت کا پابند اور کام کرنے والے ملازمین سے ان کی اجرت کے بدلے میں پورا کام لیتا تھا، وہ کسی کی عزت نفس سے نہ کھیلتا تھا اور نہ ہی اپنے مالکان کو دھوکہ دیتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ فیکٹری کا مال بیرون ملک فروخت ہوتا تھا ۔جس دن اس شخص کو بے بنیاد الزامات کی آڑ میں درندہ صفت سیالکوٹی مومن مجاہد مسلمانوں نے حب الہی سے سرشار ہوکر قتل کیا اس سے اگلے روز بیرون ملک سے تاجروں کا ایک وفد فیکٹری کا دورہ کرنے والا تھا۔ موجودہ دور میں جب پاکستان سخت مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے سوائے اور  رزاق داوود  اور چند حکومتی خرچے پر پلنے والے ارب پتی سیٹھوں کے علاوہ کاروباری لوگ پریشانی میںمبتلا ہیں سیالکوٹ والی گارمنٹس فیکٹری میں باہر سے کسی وفد کا آنا اچھی علامت تھی ۔

جس سے فیکٹری مالکان، ورکروں اور ملک کو فائدہ تھا۔ سری لنکن مینجر کے قتل کی وجہ ایک مذہبی سٹیکر بنا جو کسی مومن مسلمان ورکر نے ایک مشین پر لگا رکھا تھا۔مینجر نے مشینوں کی صفائی کے دوران سٹکر ہٹانے کا کہا مگر اس سچے مسلمان نے سٹیکر نہ ہٹایا،  بجائے ورکر سے الجھنے کے منیجر نے  سٹیکر خود ہٹا دیا جسے دین اسلام کی توہین قرار دے کر نہ صرف اس فیکٹری کے دیندار مسلمانوں بلکہ قریبی علاقے کے تہجد گذاروں نے بھی ایک نہتے،بے وطن ،بااصول ،غریب الوطن مینجر کو قتل کرنے کا عظیم مذہبی فریضہ سرانجام دے کر نہ صرف اپنے مذہب ، عقیدے ، فرقے اور شہر کا بلکہ ملک کا بھی نام روشن کیا۔


بھارت میں آر ایس ایس والے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی امریکہ جیسے مہذب انسان دوست اور اعلی اخلاق کے دعویدار پولیس والے بھی مسلمانوں اور اپنے ہم وطن سیاہ فارم باشندوں کو نسلی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ رہنے کا حق چھین لیتے ہیں۔ مگر جو کام سیالکوٹی مسلمانوں نے کیا وہ ہر لحاظ سے انوکھا اور منفرد ہے۔ نیوزی لینڈ میں صرف ایک جنونی آسٹریلوی باشندے نے مسجد کے اندر مسلمانوں کو شہید کیا جس پر ساری نیوزی لینڈر قوم نہ صرف شرمندہ ہوئی بلکہ معافیاں  بھی مانگیں۔

  مولانا فضل الرحمن کے ایک بیان پر ہلکاسا احتجاج ہوا جبکہ ٹی ایل پی کے بارے میں ایک بیان آیا کہ سیالکوٹ کے واقع نے ساہیوال میں ہونے والے ضمنی الیکشن پر اثر ڈالا اور اس جماعت کو متوقع ووٹ نہ مل سکے۔ جمعیت علمائے اسلام اور تحریک لبیک کا اس سانحے سے کیا تعلق تھا اور ہمارا آزاد اور بے باک میڈیا اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے کیوں قاصر ہے اس کی وجہ بھی نامعلوم ہے۔


یہ بھی بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان اس واقعے کے محرکات سے اچھی طرح واقف تھے او ر سٹیکر اتارنے کی غلطی یا جرم پر مینجرسے معافی بھی منگوا چکے  تھے۔ میڈیا کے مطابق سری لنکن مینیجر اردو، عربی یا پنجابی زبان سے ناواقف تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیکٹری مالکان بیان کردہ معاملات سے بے خبر تھے اور انہیں علم نہ تھا کہ فیکٹری ملازمین میں جنونی کیفیت کے حامل ایسے افراد موجود ہیں جو کام چور،بددیانت اور فرقہ وارانہ جنونیت کے حامل ہیں ۔

اگر کسی گاوں یا محلے میں بھی ایسا آدمی ہو تو سارے علاقے کو اسکی چالوں اور حربوں کی خبر ہوتی ہے اور لوگ اس کے معاملات سے الگ رہتے ہیں۔ اول فیکٹری مالکان خود کسی ایسے گروہ کا حصہ ہو سکتے ہیں یا پھر کسی گروہ کے دباو میں ہوں گے ۔آخر مذہبی نوعیت کے سٹیکر مشینوں پر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ مشین فیکٹری کا حصہ تھی کوئی سڑک پر لگے ٹرانسفارمر،پلوں اور گھروں کی دیواریں تو نہ تھیں۔

دنیا بھر میں مزدور  ملوں،  فیکٹریوں اور مکانوں کی تعمیرات کے علاوہ بڑی بڑی ہاوسنگ سکیموں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرتے ہیں مگر کوئی اپنے مذہب عقیدے یا فرقے کی نہ تو بات کرتا ہے اور نہ ہی تبلیغ یا پرچار کرتا ہے۔ جس شخص نے یا جن اشخاص نے یہ سٹیکر لگا رکھا تھا آخر مالک نے ایسے جنونی لوگوں کو ملازم کیوں رکھا تھا اس بات کی ابھی تک وضاحت نہیں ہوئی کہ یہ مذہبی اسٹیکر کس جماعت، فرقے یا کس پیر فقیر کے آستانے  نے جاری کیا تھا۔

آخر مولانا فضل الرحمن کا بیان اور ٹی ایل پی کے الیکشن  پراس سانحہ کا کیوں اثر پڑا۔ اگر ایک سٹیکر ہٹانے پر ایک غریب الوطن محنت کش کو چند سو جنونیوں نے قتل کیا ہے تو کل کلاں کوئی پوسٹر ،اشتہار یا وال چاکنگ مٹانے پر لاکھوں لوگ مل کر ہزاروں کو جلا کر بھسم کر سکتے ہیں ۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قرآنی آیات کی سب سے زیادہ بے حرمتی ہوتی ہے۔


ہر روز لاکھوں کی تعداد میں اخبارات، رسائل، عرس، میلاد  اور دیگر مذہبی تقریبات کے پوسٹر چھپتے ہیں جن پر قرآنی آیات بکثرت لکھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کے کارڈ موت ومرگ کے پیغامات اور دیگر تقریبات کے دعوتی کارڈوں پر بھی قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں۔ ہر سال کلینڈروں کی اشاعت ہوتی ہے اور پھر یہ سارا میٹریل کسی نالے یا کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔

گندے نالوں گٹروں اور گھروں کے باہر لگے کچرے کے ڈ بوں میں آپ کو قرآن کریم کے اوراق مذہبی کتابیں اور رسائل دیکھنے میں مل سکتے ہیں۔ جو سراسر اللہ کے احکامات سے روگردانی اور بغاوت ہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ناپاکی کی حالت میں قرآن کو چھونا بھی منع ہے۔ کیا کسی مذہبی دینی  جماعت کسی مولوی ، مفتی، یا گدی نشین پیر کو اس عظیم اجتماعی گناہ کاکبھی خیال نہیں آیا ۔

جو قوم مسلمان ہونے کی دعوے دار ہے اسے اللہ کے کلام کی عزت و عظمت سے زیادہ آئین اور مقدس پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال ہے ۔ چونکہ آئین ان کے منتخب نمائندوں  کے حقوق کا محافظ اور پارلیمنٹ ایسے قوانین بنانے والا ادارہ ہے جو قاتل کو عزت اور مقتول کو مجرم ثابت کرتے ہیں۔
سری لنکن مینیجر مسلمان تو نہ تھا مگر ایماندار اور محنت کش تھا۔ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتا تھا ۔

جو کام چور مسلمان ورکروں کو پسند تھا۔ وہ نہ نماز کے بہانے مسجد میں بیٹھ کر ٹائم پاس کرتا تھا اور نہ ہی بیوی بچوں اور ماں باپ کی بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹیاں لیتا تھا ۔
 پتہ نہیں ان بلوائیوں میں کتنے تھے جنہوں نے کبھی صحیح کلمہ پڑھا ہو، انہیں وضو اور نماز کا طریقہ آتا ہو، کبھی مسجد کا رخ کیا ہو، رزق حلال کمایاہو،  حقوق العباد کا خیال رکھا ہو۔

جنہیں پتہ ہو کہ ایک بے گناہ شخص کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ ان جاہلوں کو علم ہوتا تو وہ ایسی سفاکیت اور درندگی کے مرتکب نہ ہوتے۔ وزیراعظم عمران خان نے فرمان جاری کیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے پتہ نہیں کس انصاف کی بات ہورہی ہے۔ قانون میں تو اس جرم کی کوئی سزا ہی نہیں۔ سینکڑوں بلوائیوں میں صرف وہ شخص مطلوب ہے جس کی ضرب سے مقتول کی موت واقع ہوئی۔ وہ ایک شخص نہ کبھی ملے گا، نہ انصاف ہوگا نہ سزا ہوگی۔ سیالکوٹ کے دوبھائیوں کے قاتل باعزت بری ہو گئے ہیں جبکہ بلدیہ فیکٹری اور ماڈل ٹاون کے مقتولین ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :