زندہ رہنا ہے تو ڈر کر رہو

بدھ 8 دسمبر 2021

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

 اسلام آباد سے ایک سینئر صحافی نے 10نومبر کے پروگرام کے میں انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کارپارکنگ کے مسئلے پر کسی خاتون اور ایک شہری کے درمیان تکرار ہوئی جس پر خاتون نے اپنے کسی رشتہ دار اسسٹنٹ کمشنر کو موقع پر بلا کر شہری کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اسسٹنٹ کمشنر نے پولیس پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ شہر ی کے خلاف ایف آئی  آر  درج کرے اور وومن ہراسمنٹ کی دفعہ لگا کر اسے لاک اپ میں بند کردے۔

پولیس اب کچھ سبق حاصل کر چکی ہے اور پولیس والوں کی سمجھ میں آرہا ہے کہ عوام اُ ن کے جبر اور ظالمانہ رویے کیوجہ سے نہ صرف تنگ آچکی ہے بلکہ شدید نفرت کرتی ہے۔ پولیس والے اگر بے گناہ بھی مارے جائیں پھر بھی عوام کو ان سے یا ان کے پسماندگان سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ۔

(جاری ہے)

پولیس والا چاہیے کتنا ہی نیک اور پارسا کیوں نہ ہو عام آدمی کی نظر میں و ہ ظالم او رراشی ہی تصور کیا جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ کسی بھی محکمے یا ادارے میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے مگر سیاسی دبائو اور مافیا کی غنڈہ گردی کی وجہ سے پولیس نہ چاہتے ہوئے بھی غیر قانونی اور غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے جو عد ل و انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
بہر حال اس کیس میں پولیس نے اے سی صاحب بہادر کی نہ سنی اور معاملہ اعلیٰ پولیس افسروں اور کمشنر اسلام آباد تک پہنچ گیا ۔

آخر کار رات دو بجے اسی کی منت سماجت کی گئی تو شہری کی جان چھوٹی ۔
سوائے ایک چینل کے کسی دوسرے چینل یا اخبار نے اس خبر پر کچھ کہا اور نہ لکھا ۔ اگر ایک ذمہ دار صحافی نے یہ خبر دی ہے تو یقینا خبر دست ہوگی اگر خبر درست نہیں تو صحافی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنا ضروری ہے۔ سرکاری افسروں کی فرعونیت کوئی نئی بات نہیں مگر حکومتیں اور حکمران کبھی ان کی سر زنش نہیں کرتے بلکہ اُن کے جابرانہ رویے پر ہمیشہ تعریف ہی کرتے ہیں ۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس جناب حافظ ایس ڈی جامی نے اپنی کتاب  ''پولیس کرائم اینڈ پالٹیکس '' اسی موضوع پر لکھی ہے کہ پاکستان بنتے ہی پولیس سیاستدانوں اور جرائم پیشہ عناصر کی آغوش میں چلی گئی ۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے پولیس کو رشوت خوری کی کھلی چھٹی دی اور مجرموں اورمفسدوں کی تربیت اور حفاظت کی ذمہ داری بھی پولیس کے فرائض میں شامل کر دی۔

جرائم اور جھگڑوں کی بنیاد پٹوارخانوں میں رکھی جاتی ہے  جس کی وجہ سے پٹواری اور تھانیدار کی ذہنی ہم آہنگی کو ضروری سمجھتے ہوئے انہیں ایک ہی دسترخوان پر بیٹھا دیا گیا۔ اکثر قتل اور جھگڑے زمین جائیداد سے شروع ہوتے ہیں اور پھر اغوا ئ، چوری ، ڈاکے سے لیکر قبیلوں ، برادریوں اور علاقوں تک پھیل جاتے ہیں ۔ پٹواری جرم کی بنیاد رکھتا ہے اور تھانیدار جرائم کا قلعہ تعمیر کرتا ہے جسے ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی مسمار نہیں کرسکتی ۔

البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ مجرم جج کا دوست یا پھر رشتہ دار بن کر ناقابل شکست ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلے کی تازہ مثال چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ڈاکٹر امجد کے درمیان قائم ہونے والی رشتہ داری ہے۔ملتان سے مشہور صحافی اور کالم نگار میاں غفار احمد نے اپنے مضمون '' اور وہ بھی خالی ہاتھ چلا گیا '' کے عنوان سے لکھا کہ ڈاکٹر امجد اور چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی رشتہ داری کیسے قائم ہوئی اور پھر ڈاکٹر امجد نے کس طرح پولیس والوں کو نوازنا شروع کیا۔

دیکھا جائے تو ہائوسنگ سکیموں کے سبھی مالکان کا یہی طریقہ کار ہے۔ ہمارے وزیراطلاعات فواد چوھدری نے تو ایک بار بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کو ملک کا صدر بنانے کی بھی تجویز دی تھی جبکہ ملک ریاض پر درجنوں مقدمات ہیں مگر کسی جج کو جرات نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی فائلوں کی طرف دیکھے ۔یہی حال جرائم پیشہ سیاستدانوں کا ہے جن کی شان وشوکت اور سیاست کی بنیاد تھانوں اور پٹوارخانون میں ہی رکھی گئی ۔

سیاستدان قتل بھی کر دے تو پٹواری اور تھانیدار ملکر اُسے جائے وقوعہ سے ستر میل دور لکھ دیتے ہیں اور سیاستدان وکٹری کا نشان بنا کر چند ہفتوں کے اندر جیل سے نکل آتا ہے۔
میاں غفار احمد کے دو کالم پڑھ کر لگا کہ ہم کسی ایسے جنگل میں رہتے ہیں جہاں درندوں اور خونخوار انسان نماوحشیوں کی حکمرانی ہے۔ پہلے کالم کا عنوان ہے ''ڈی ایس پی کا آئی جی پنجاب کو ولدہ '' اور دوسرے کا ''کنیز فاطمہ ایک درخواست بنام رب العالمین '' لکھتے ہیں کہ سیاسی پشت پناہی او ر جرائم پیشہ عناصر سے تعلق رکھنے والے تھانیدار اور ڈی ایس پی آئی جی کو بھی گھاس نہیں ڈالتے ۔

زرداری اور نواز شریف کے طریقہ حکمرانی میںتو ایسے لوگوں کی پشت پناہی شامل تھی اور انہوں نے کبھی اپنی پارسائی کا ڈھندور ابھی نہیں پیٹا مگر عمران خان نے ریاست مدینہ کو جس انداز میں پیش کیا وہ نہ صرف اخلاقی بلکہ سیاسی ، روحانی اور دینی اقدر کا بھی تمسخر ہے ۔ پی ٹی آئی کا کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جس سے ریاست مدینہ کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہو۔


میاں غفار احمد کے کالم اوراینکر صحافی  کے پروگرام قابل تحقیق ہیں اور حکومت ، خاص کر سیول بیورو کریسی کی ایسے جرائم پر خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے چند ہزار طاقتور لوگوں کے اس ملک کا ہر شہری مجرموں کے رحم و کرم پر ہے۔
اگر اسلام آباد کا اے سی اتنا طاقتور ہے تو کسی دوسرے ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کا کیا حال ہوگا۔ یقینا اے سی کی پشت پر کوئی بڑی شخصیت کھڑی ہے جیسے کشمالہ طارق کے بیٹے کی کہانی پہلے باسی ہوئی اور پھر پرانی ہوگئی۔

اسلام آباد پولیس نے بھی ایک نوجوان کو قتل کیا اور ٹول پلازہ کا ایک سانحہ بھی ہوا تھا ۔ ماڈل ٹائون ، بلدیہ فیکٹری ، مصطفی کا نجو اور شاہ رخ جتو ئی جیسے کیسوں کی تو کبھی بات ہی نہیں ہوتی ۔ پولیس انسپکٹر کو سرے عام کچلنے والا ایم پی اے مجید اچکزئی بھی تو تھا ۔اور کتنے ہیں جن کی آشیر باد سے خلق خدا پر ظلم ہو رہا ہے مگرکسی کو پتہ ہی نہیں ۔

بڑے اینکروں ، بڑے چینلوں بڑے صحافیوں دانشور اور اہل الرائے کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ایسے لوگوں کے پسندیدہ موصوعات زرداری ، بلاول  اور شریف خاندان ہیں۔ کوئی عقل مند عدل و انصاف کی بات نہیں کرتا اور نہ ہی مجرم بیوروکریسی اور ظالمانہ سیاست کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکمران اور سیاستدان خو د اس مافیا کا حصہ ہیں اور ان ہی جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے حکومت کرتے ہیں۔


ستم یہ کہ عدلیہ اکثر معاملات انتظامیہ پر چھوڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے کرپٹ انتظامی ادارے من مانی کرتے ہیں ۔ ضلعی اور صوبائی سطح پر عدلیہ گلو خلاصی کرتے ہوئے مقدمات سپریم کورٹ کی طرف دھکیل کر اعلیٰ عدلیہ پر اتنا بوجھ ڈال دیتی ہے کہ مجرم کئی دیہائیوں تک آزاد پھرتے ، الیکشن لڑتے، حکومت کرتے اور پھر کسی من پسند جج سے اپنے حق میں فیصلہ کروالیتے ہیں۔

اسی طرح مجرم اپنی رشتہ داریوں اور تعلق درایوں کا سہار ا لیکر اللہ کی زمین پر اپنی خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایبٹ آباد پولیس نے ایک صحافی کو توہین رسالت کے کیس میں پھنسا لیا ۔ صحافی نے مقامی اخبار میں ایبٹ آباد پولیس کے خلاف خبر لگائی کہ مانسہرہ سے سمگل ہونے والی لکڑی پولیس کی حفاظت میں پنجاب بھجوائی جاتی ہے ۔

اسی صحافی نے ایک کالم میں لکھا کہ کچھ مولانا حضرات مثالیں تو پیغمبروں کی دیتے ہیں مگر اپناکردار پیش نہیں کرتے۔ان کے پیٹ کھا کھا کر بے قابو ہو رہے ہیں جبکہ ہمارے نبی ۖ نے جنگ خندق کے دوران اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔ پولیس نے اس مضمون کو توہین رسالت قرار دیا اور صحافی جیل چلا گیا ۔ صحافی کا رشتہ دار صحافی کی لکڑ اسمگلنگ کی خبر اور کالم لیکر آرمی مانیٹرنگ سیل پشاور آیا تو آرمی مانٹیرنگ سیل نے صحافی کی درخواست اور اخباری تراشتے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیے۔

تین روز بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے جواب دیا کہ پولیس نے بدنیتی پر مقدمہ درج کیا ہے اس کالم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہو اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے پرایس پی ایبٹ آباد پر اختیارات سے تجاوز اور قانون کے غلط استعمال کا مقدمہ تو بنتا تھا مگر موصوف کسی ائیر مارشل کے داماد تھے۔ بہر حال صحافی صاحب جیل سے واپس آئے اور عرصہ تک پولیس کا ناطقہ بند کیے رکھا۔


یہ بات قابل تحقیق ہے کہ اگراسلام آباد کے صحافی کی رپورٹ مبنی بر حقیقت ہے اور دیگر صحافیوں اور میڈیا ہائوسیس نے خاموشی اختیار کی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ اے سی صاحب کی پشت پر کوئی بڑی آسامی کھڑی ہے جس کا انجن ایٹمی  ایندھن سے چلتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی دیوہیکل شخصیت کے داما دیا پھر اولاد ہونگے جن کی منت کر کے شہری کی جان چھڑائی گئی ہے۔


اگر واقعہ درست ہے تو اے سی کو فی الفور وزیراعظم ہاوئس میں تعینات کیا جائے چونکہ جناب عمران خان نیازی بھی ہٹ دھرم ، ضدی اور بات نہ ماننے میں مشہور ہیں ۔ صحافیوں اور انتظامیہ کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے مگر آزاد عدلیہ ، انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ عام شہریوں سے گزارش ہے کہ وہ قیمتی گاڑیوں اور ماڈرن خواتین سے فاصلہ رکھیں۔

اگر کوئی خاتون کسی افسر کی تڑی لگائے تو ہاتھ جوڑ کر یا پھر پائوں میں گر کر معافی مانگ لیں ورنہ عمر قید یا پھر موت کی سزا کے لیے تیار رہیں۔ امام سیوتی ،دو لباخ ، ٹالسٹائی اور امام غزالی نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ قوانین کی بھر مار قانون شکنی اور قوانین کے غلط استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ ویسے تو پرانا پاکستان بھی جنت کا نمونہ نہ تھا مگر نیا پاکستان زیادہ خوفناک ہے۔

بقول حافظ ایس ڈی جامی سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس کے پاکستان بنتے ہی پولیس ، کرائم اور یولیٹکس ایک پیج پرآگئے تھے اور اب یہ پیج 75جلدوں پر مشمتل ایک ضغیم کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہات نے لکھا ہے کہ پٹواری کی رپورٹ ہمیشہ مفصل اور تھانیدار کی مستند ہوتی ہے۔ اے عزیز ہم وطنو زندہ رہنا ہے تو ڈر کر رہو اور گھر پر ہی رہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :