
بے چراغ گلیوں میں اک چراغ جلنے دے
پیر 27 اپریل 2015

جاہد احمد
بطور قوم ہم بھی صحیح و غلط کے احساس سے عاری ہو چکے ہیں۔
(جاری ہے)
ظلم کو معمولِ زیست جان کرروز مرہ زندگی کا حصہ بنا کر جینا ہماری سرشت بن چکی ہے۔ ہم بھی وہ بھیڑیں ہیں جو روز کٹتی پٹتی ہیں لیکن رونے تک پر تیار نہیں۔
یوں تو ملک کے کسی بھی حصے اور بالخصوص کراچی جیسے افراتفری سے بھرپور شہر میں کسی بھی قتل کی واردات کو نا معلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دینا انتہائی آسان اور معمول کی بات ہے لیکن سبین محمود کے قتل کو نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال کر فائلوں میں ردی کر دینا بطور قوم قابلِ قبول عمل نہیں ہونا چاہیے۔
بلوچستان بلاشبہ پاکستان کا حصہ ہے نہ کہ مریخ کا ۔ بلوچستان کے مسائل پاکستان کے مسائل ہیں۔ بلوچستان کے’ مسنگ پرسن‘ پاکستان کے مسنگ پرسن ہیں۔ بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندوں کی تحریک سے درست لائحہ عمل کے تحت نمٹنا حکومتِ وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ بلوچستان اپنے حدود اربعہ، تاریخ، سیاسی اور بین الاقوامی حالات،پاک چین معاشی راہداری کے منصوبوں اور دیگر سرحدی معاملات کے اعتبار سے انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں سبین محمود جیسے افراد ان مسائل کے حل تلاش کرنے اور پیچیدہ حالات کا شکار مقامی افراد کی آوازکو مناسب فورم مہیا کرکے حکومتِ وقت اور سیکیورٹی اداروں کو زمینی حقائق کو پرکھنے ، مقامی افراد کے جذبات کو سمجھنے اور درست لائحہ عمل اختیار کرنے میں حد درجہ معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہو تو یہ رہا ہے کہ آواز بلند کرنے والے کی آواز ہی دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی ہے۔
سبین محمود جیسے افراد ہی توپاکستان جیسے رجعت پسند، اندھیرے ،تنگ و تاریک معاشرے میں قومی شعور اجاگر کرتے چراغ ہیں۔ خالد احمد نے ایسے ہی گھٹن زدہ پرخوف ماحول اور باشعور و بہادر افراد بارے کہا ہے:
خاک میں لتھڑنے دے پاؤں پاؤں چلنے دے
اے ہوا کے جھونکے سن اس روش کی لو مت چن
بے چراغ گلیوں میں اک چراغ جلنے دے
دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ سیاسی قائدین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے اس سانحہ پر بہت شدید ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا گیا حالانکہ سبین محمود کا قتل قومی سوچ و فہم کا قتل ہے جس کو پارلیمان میں بطور خاص زیرِ بحث لایا جانا چاہیے ۔ یوں بھی ریاستِ پاکستان ذہنی و شعوری طور پر قحط کا شکار ہے۔ فہم اور شعور کے نام پر عوام اپنے ہاتھ میں تھمائے گئے جھن جھنے کو برسوں سے بجا بجا کر انتہائی خوش و مطمئن ہے۔ ایسی قحط زدہ ریاست میں کمیاب حقیقی شعور کو بھی لکیر کے دوسری طرف جانے کی پاداش میں چن چن کر ختم کر دیا جائے اور ریاست منہ تکتی رہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے! یہ ظلم ہے۔ پر بھیڑیں سمجھیں تو سہی ، رونے کی کوشش تو کریں ! شاید آنسو نکل ہی آئیں!!!
الله تعالی سبین محمود کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔ آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاہد احمد کے کالمز
-
روم جل رہا ہے
جمعرات 24 اکتوبر 2019
-
ایسا کیوں نہ ہوتا
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
پپو جونیئر کا پاکستان
جمعرات 18 جولائی 2019
-
یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں
ہفتہ 22 جون 2019
-
گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان
بدھ 22 مئی 2019
-
سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو
جمعرات 10 اگست 2017
-
پاکستانیت کیا ہے
اتوار 1 جنوری 2017
-
بھلے پکوڑیوں سے آگے
اتوار 5 جون 2016
جاہد احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.