
کتابیں بولتی ہیں
بدھ 27 مئی 2015

جاہد احمد
(جاری ہے)
واہ! کیا بات ہے!’ کتابیں بولتی ہیں‘۔
رضا الحق صدیقی صاحب اردو ادب کا وسیع تر مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کی ’کتابیں بولتی ہیں‘ اس علم و فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
’کتابیں بولتی ہیں‘تخلیق کاروں کے نثری و شعری فن پاروں کے تجزیاتی مطالعہ جات پر مبنی سچے اور کھرے ادبی تجزیہ نگار کی ایسی سچی کاوش ہے جس میں تنقید کا عنصر تضحیک اور ہتک عزت کے زہر سے پاک ہے، ایسا متوازن تجزیہ جو تتلی کی اڑان کی طرح غیر محسوس انداز میں خامی کی نشاندہی بھی کرتا ہے اور مثبت پہلوؤں پر رنگ بھی بکھیرتا چلا جاتا ہے یوں کہ تخلیق کار کا حوصلہ بھی بلند رہے اور خامی بھی در پردہ نہ رہے۔ یہی خوبی رضا الحق صدیقی صاحب کو تنقید نگار کہلائے جانے والے دیگر قلمکاروں سے ممتاز کرتی ہے! رضا صاحب ادبی سطح پر طے شدہ اصولوں کے تحت پُر مغز تجزیہ کرتے ہیں۔ محض تنقید برائے تنقیدنگاری نہیں!!
رضا الحق صدیقی صاحب کی ’ کتابیں بولتی ہیں‘ قاری کاہاتھ پکڑ کر ایک ایک کرتے ہوئے مضمون با مضمون ادبی شخصیات سے ملاقات کراتی اور اس کے فن بارے بات چیت کرتی ہولے ہولے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ملاقات اور بات چیت کا سلسلہ کب شروع ہو کر ختم بھی ہوگیا۔ بہر حال ملاقات وہی اچھی جس میں ملاقات کے بعد بھی کچھ کسک کچھ کمی کچھ تشنگی رہ جائے۔ تاکہ دوبارہ ملنے کی تڑپ کم از کم برقرار رہے۔ یہی اس کتاب کی خوبی ہے کہ یہ اپنے لئے مزید طلب کی خواہش پیدا کرتی ہے ۔
’کتابیں بولتی ہیں‘ بلاشبہ بنیادی و اولین طور پر فن پاروں کے تجزیاتی مضامین پر مشتمل کتاب ہے! لیکن احمد ندیم قاسمی، خالد احمد، شہزاد احمد، مجید امجد، گلزار، مشرف عالم ذوقی جیسے افراد پر لکھے گئے ادبی و توصیفی مضامین ان نابغہ روزگار تخلیق کاروں کے فن کی نئی جہتوں سے آگاہی بخشتے ہوئے کتاب کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح کتاب کا ابتدائیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ان جائزاتی مطالعہ جات کی بنیاد یا اپروچ یا اصولوں کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجزیہ کار اپنی ذاتی پسند و نا پسند کو بھی کسی معیار یا طے شدہ اصولوں کی کسوٹی پر پرکھے بغیر رائے دینے پر تیار نہیں۔ کتاب کی بنیاد گہری اور مضبوط ہے، لکھنے والا باذوق باشعور باخبر با علم باکردار اورزمانہ و ادب شناس شخص ہے، کتاب ادبی محاسن پر صفحہ با صفحہ موقع محل کی مناسبت سے پُر اختصارمگر مدلل و مکمل گفت و شنید کرتی ہے۔ اس کتاب کا ہر ہر صفحہ ادبی گیان کی بولی بولتا ہے ۔ ایسی خوبصورت بولتی کتاب کو سامعین قارئین کی صورت مل جائیں تو لکھاری کی محنت ٹھکانے لگ جائے گی۔باقی اس کتاب کے بارے میں حتمی رائے تو قارئین خود پڑھ کر ہی قائم کر یں گے!!!
اختتام میںآ غاز سے متعلق کہنا ضروری ہے کہ کتاب کا انتساب ایک ایسا جز ہے جو محض چند سطروں پر مشتمل ہونے کے باوجودمصنف کے لئے ہمیشہ انتہائی اہم رہتا ہے اور کسی خاص شخصیت سے اس کی جذباتی وابستگی کامہر ثبت ثبوت بھی ہوتا ہے۔ رضا صاحب نے یہ کتاب اپنے بابا ضیا الحق صدیقی صاحب کے نام کی ہے جنہیں وہ بابا جی سرکار اور مرشدِ کامل کہہ کر کتاب کے آغاز میں آواز دے رہے ہیں۔ رضا صاحب کے بابا جی یقینا بہت خوش ہوں گے کہ ان کے رضا نے ’کتابیں بولتی ہیں‘ کو ان کے نام سے منسوب کر کے اس کتاب کے ساتھ زندہ جاوید کر دیا ہے جو کہ اردو کے تنقیدی ادب میں منفرد مقام کی حامل تجزیاتی کتاب کے طور پر جانی پہچانی جائے گی۔ یقینا رضا الحق صدیقی صاحب اور ان کی اہلیہ اعلی معیار کی اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
’کتابیں بولتی ہیں‘ کے ناشر گگن شاہد اور امر شاہد ہیں جبکہ یہ کتاب بک کارنر جہلم سے بذریعہ ٹیلی فونک یا آن لائن آرڈرسے بھی خریدی جا سکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاہد احمد کے کالمز
-
روم جل رہا ہے
جمعرات 24 اکتوبر 2019
-
ایسا کیوں نہ ہوتا
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
پپو جونیئر کا پاکستان
جمعرات 18 جولائی 2019
-
یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں
ہفتہ 22 جون 2019
-
گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان
بدھ 22 مئی 2019
-
سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو
جمعرات 10 اگست 2017
-
پاکستانیت کیا ہے
اتوار 1 جنوری 2017
-
بھلے پکوڑیوں سے آگے
اتوار 5 جون 2016
جاہد احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.