
”اقبال ایک لوکل شاعر“
منگل 18 نومبر 2014

کے ایم خالد
آواز کا لحجہ کچھ اضطرابی کفیت کا تھا میں ڈرتے ڈرتے پوچھا ”آپ کون۔۔؟“
”میں علامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ۔”علامہ طاہر القادری صاحب “میں نے بات مکمل ہونے سے پہلے کی بات اچک لی ۔”نہیں علامہ محمد اقبال تمہارا شاعر مشرق جس کے کلام کے بغیر تمہارے اسکولوں میں صبح نہیں ہوتی “
” شکریہ ،علامہ صاحب آپ نے مجھے عزت بخشی “
”تمہارے دانشور میری عزت کے درپے ہیں ایک توکچھ ذیادہ ہی اچھل اچھل کر اپنے قد کو بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا کہناہے اقبال ایک لوکل شاعر ہے جسے ہم نے خواہ مخواہ سر پر چڑھا رکھا ہے اور تو اور مجھے مشاہیر کا درجہ دینے کوتیار نہیں اس کے خیال میں جیسا آج کل تمہارے ملک میں ہر چیز چائنا سے آ رہی ہے تمہارا قومی شاعر بھی چائنا سے ہونا چا ہئے“۔
(جاری ہے)
”لیکن سر ۔! آپ یہ ساری باتیں ان سے بھی تو کر سکتے تھے “۔
”میں کئی بار اس کی خواب گاہ میں گیا لیکن اسے خواب غفلت سے بیدار نہیں کر سکا میں تو یہی کہہ سکتا ہوں۔
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
”وہ عطا کی محبت ہے جو انہیں اللہ رب العزت نے عطا کی ہے میں تمہارے اس دانشور کو بھی برا نہیں سمجھتا کیونکہ
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
” جی،آپ بجا فرما رہے ہیں “ میں نے مختصر جواب دیا میں انہیں سننا چاہتا تھا ۔
” مجھے اگر خبر ہوتی کہ تمہارے دانشور کو چائنا کے شاعر بہت پسند ہیں تو جہاں میں نے فارسی میں اتنا کلام لکھا ہے کچھ چائنا کی زبان میں بھی لکھ دیتا اور تمہارے دانشور اس کا ترجمہ کرواتے پھرتے اور مجھے شاعر مشرق ہی تسلیم کر لیتے “۔وہ سانس لینے کے لئے رکے ”اب دیکھو ممولے کو لڑا دے شہباز سے، اس میں کونسا ایسا فلسفہ ہے جو سمجھ نہیں آ رہا کیا وہ اپنی تحریروں میں میرے اس فلسفہ کی نفی کرتے ہیں نہیں، میں تمہیں اس کی دو ٹویٹ سناتا ہوں ”لوگوں کا قتل عام کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ قسطوں میں مر رہے ہیں ۔خوکشیاں،غربت،کسمپرسی،امن وامان کی صورتحال ،فاقے ،بیروزگاریاں اور لوڈ شیڈنگ “دوسری ٹویٹ میں لکھتے ہیں”پھر ان کا ٹھنڈا خون پیا جانا چاہئے جو جوش میں نہیں آتا ،کھولتا نہیں ظلم اور نا انصافیوں کے خلاف جس میں قوت برداشت شرمناک حد تک بڑھ گئی ہوتی ہے “۔
”جی ،آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں “۔
”کیا عوام کو حکومت وقت کے خلاف اکسانا ممولے کو شہاز کے ساتھ لڑانے والی بات نہیں اس کی تمام تحریروں میں گالیاں عوام کے لئے ہیں کہ وہ کیوں حاکم کے خلاف نہیں اٹھتے خود اس کا وقت کے ساتھ ساتھ قبلہ تبدیل ہو رہا ہے کبھی اسے کوئی سیاسی جماعت نجات دہندہ نظر آتی ہے اور وقت بدلنے کے ساتھ ہی اس کی پارٹی اور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں “۔
”بس جی کریں کیا ریٹنگ کا دور ہے کچھ اسے پڑھ رہے ہیں اور کچھ ٹی وی اس کو دانش بھگورتا دیکھ رہے ہیں بس ریٹنگ ہونی چاہئے ،چاہے وہ مثبت ہو یا منفی “۔میں نے اپنا موقف پیش کیا
”وہ تم نے میری ایک نظم گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ترنم کے ساتھ پڑھی تھی اس کے چند اشعار سناؤ کچھ تو میری افسردگی کم ہو “۔
”جی،ضرور
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ
کھول آنکھ زمین دیکھ ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ“
” جی انشااللہ “ ۔میرے منہ سے بے اختیار نکلا
”اور اس کا ایک اپنا ہی شعر ہے
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا
میری آنکھ موذن کی سحر بھری آواز سے کھلی جو نیند سے بیدار ہونے کاپیغام دے رہی تھی الصلوة خیر من النوم ،الصلوة خیر من النوم ،اللہ اکبر ،اللہ اکبر ،میں نے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا میری رائٹنگ ٹیبل کے سامنے کرسی یوں ہل رہی تھی جیسے ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کے ایم خالد کے کالمز
-
شوز فرنچائزر کے کرشمے
جمعرات 8 اکتوبر 2015
-
85ہزار ”بیروزگار “اساتذہ
اتوار 19 اپریل 2015
-
”اقبال ایک لوکل شاعر“
منگل 18 نومبر 2014
-
مخلوطیت نچلی سطح پر
منگل 3 دسمبر 2013
-
الوداع دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر 9 ستمبر 2013
-
خان۔۔ ! یہ تو میں بھی کر سکتا تھا
اتوار 18 اگست 2013
-
وہ جو 2013 میں بخشے گئے
جمعہ 17 مئی 2013
-
پاکستان بدلے گا۔۔۔۔۔؟
ہفتہ 4 مئی 2013
کے ایم خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.