انقلاب، آزادی ، استعفیٰ اور پاکستان!!!

جمعرات 4 ستمبر 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے، جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
” شروع میں ہی آپکی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ اس تحریر کو مکمل پڑھنے کے بعد اپنی آراء سے آگاہ کیجیئے گا، بیچ درمیان ادھ پڑی تحریر خادم کے لیئے وجئہ ذیادتی ہو گی“
ایک کینیڈا پلٹ خطیب پُرجوش انداز میں خطاب فرماتے ہوئے مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو آپ کامیاب ہو گئے ہیں، انقلاب آ گیا ہے، مبارک ہو آپ فتح یاب ہو گئے ہو، بس انقلاب آخری مرحلا میں داخل ہو گیا ہے۔

محترم قبلہ نے پیروکاروں میں جوش کی ابھرتی لہر دیکھی تواپنا سینہ چاک کرتے ہوئے مزید فرمایا!!! یہ میرا آخری غسل ہے اور میں نے غسل شہادت کر لیااگر میں شہید ہو جاؤں تو مجھے بغیر غسل ہی دفنا دینا کیونکہ شہید کو غسل نہیں دیا جاتا، عقیدت مندوں کی آنکھیں اشکبار ہونے کی دیر تھی تو موقع کی مناسبت کو جانچتے ہوئے قبلہ نے ہوا میں اپنا کفن بلند کیا، کفن لہرانے کی دیر تھی کہ مٹھی بھر انقلابیوں ( سرکاری ذرائع کے مطابق جن میں بلخصوص عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے) میں واویلہ مچ گیاجس کی بدولت فضاء سوگوار ہو گئی۔

(جاری ہے)

ایسا ایک بار نہیں ہوا بلکہ ڈاکٹر صاحب ایسے وعظ و بیان بارہا فرما چکے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو رلا رلا کر ادھ موا کر چکے ہیں، قادری صاحب سے خدا کی پناہ۔
ادھر قبلہ کا خطاب اختتام پذیر ہونیکی دیر تھی کہ اداکاری بلے باز کے حصہ میں آن پڑی۔
اب رہی بلے باز کی کہانی تو یہ صاحب کرکٹ کے میدان میں اگر اپنا لوہا منوا چکے تو کیا یہ 1992ء میں اکیلے کرکٹ کھیل رہے تھے ؟؟؟ کیا باقی کھلاڑی موجود نہیں تھے ؟؟؟ مزید یہ کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال بنانے میں امداد تو پاکستانیوں نے کی تھی اور یہ ادارہ تو آج بھی ہم پاکستانیوں کی مدد کا منتظر ہے۔

اگر کپتان کی سیاست پہ نظر ڈالیں تو سیاسی زندگی کے 18 سال گزر جانے کے باوجود یہ صاحب ماضی سے کچھ سیکھ نا پائے بلکہ حماقتوں پہ حماقتیں کرتے ہی دکھائی دیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاست ان کے بس کا کام نہیں اگر ان محترم سے اپنی پارٹی کے صدر صاحب سنبھالے نہیں جاتے اور ان سے آئے دن نظریاتی اختلافات رہتے ہیں تو یہ برگر کلاس کو کیسے سنبھال پائیں گے جن کے نخرے ہی مان نہیں؟؟؟
خان صاحب اپنے روائتی انداز سے برگر گروپ میں جوش و جزبہ ابھارنے اور جنگی جنونی بنانے کی غرض سے خطاب فرماتے ہیں حالانکہ یہ نرم و نازک مرد و زن کا کام تو اچھل کود، ناچ گانا اور اپنے کنسرٹ کو سجائے رکھنا ہے لیکن یہ پگلا پٹھان آپے سے باہر ہو گیا اور خود کو ناقابل شکست سمجھ بیٹھا اب ان کو کون سمجھائے کہ خان صاحب یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے اور جس دھاندلی کا باجا آپ بجا رہے ہیں اولاً تو آپ نے دھاندلی کے خلاف ثبوت مہیا نہیں کیے اور دوم انہیں انتخابات میں تو حضور کو خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت بنانے کا موقع ملا ہے تو یہ کیسے ممکن کہ آپ کی حکومت دودھ کی دھلی اور باقی تمام کرپٹ ؟؟؟
جب دو ناکام کھلاڑیوں کی طرف بات چل نکلی تو کیوں نہ منصفِ اعلیٰ (ایمپائر) پہ بھی تبصرہ کرتے چلیں؟؟؟ ماحول کے پیش نظر تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سپہ سالار ہی ایمپائری کے فرائض انجام دے رہے ہیں جن کی حمائت نہ صرف قادری و خان کو ہے بلکہ وہ اپنے سابق سپہ سالار کی رہائی کے لیئے فکرمند بھی ہیں اور فکرمند ہوں بھی کیوں نہ؟؟؟ انہیں سابق صدر جنرل (ر) سید پرویز مشرف کی شکل میں اپنا بڑا بھائی نظر آتا ہے اور بعض حلقوں کے بقول تو آزادی و انقلاب مارچ کے ترتیب شدہ اسکرپٹ کے مصنف کا کردار بھی بوبی بھائی ہی انجام دے رہے ہیں۔


اس ڈرامہ کے آخری کردار کا ذکر نہ کیا گیا تو بدلتی صورتحال کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہو گا تو کیوں نہ بکاؤ میڈیا کو بھی بے نقاب کرتے چلیں۔ یہ آزادی صحافت کے نغمے گنگنانے والے مولوی و کھلاڑی سے مال کھاتے ہوئے پاکستان کے رعایا کی منتخب شدہ جمہوری حکومت پہ کیچڑ اچھال رہے ہیں لہذا اگر ان کی ڈنڈوں سے درگت فرما دی گئی تو کیا برا کیا ؟؟؟ کیا ہوا گر چند صحافیوں کے سر پھٹ گئے؟؟؟ کم از کم یہ بکاؤ میڈیا مستقبل میں جھوٹ دکھانے سے پرہیز تو کرے گااور نہ ہی ملک میں پرامن فضاء پہ کشت و خون کے الزامات لگائے گا۔


رہی معصوم جمہوریت کی بات تو جمہوریت نے آپ کے لیئے کیا کچھ نہیں کیا؟؟؟ آپ کو اپنی حفاظت کے لیئے ایٹمی بمب فراہم کیا، ملک میں سڑکوں کا وسیع و کشادہ جال بچھایا ، بجلی فراہم کرنے کی منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں، پاکستان میں صفائی کا نظام بہتر بنایا، اب غربت دور کرنے کے طریقہ کار سوچے جا رہے ہیں اور تو اور پاکستانی معشیت کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کے خواہاں ہیں۔

۔۔
تحریر کا شروعاتی حصہ حقائق پہ مبنی نہیں اور مجھے تکلیف ہوتی ہے جب میں اپنے ہی ملک کے بہن، بھائیوں یا بزرگوں کو حقائق سے کوسوں دور دیکھتا ہوں حالانکہ میرے بہن،بھائی اپنی جانوں سے زیادہ ملک پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں نسل در نسل تباہ و برباد کیا جا رہا ہے اور آج ہم پریشانیوں میں اس قدر گھر چکے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں سمجھانے کی غرض سے کچھ بھی کہے تو ہم بلا سوچے سمجھے اپنے محسن کوہی اپنا بد ترین دشمن گردانتے ہیں۔

جہاں میں نے مندرجہ بالا قادری صاحب کے بارے جملے رقم کیے وہیں آپ سے عرض کرتا چلوں کہ یہ الزامات میرے نہیں بلکہ میرے ہی چند دوستوں نے بیان کیے تھے اور اب وقت ہے کہ حقائق آپ کی نظر کرتا چلوں قادری صاحب کینیڈا پلٹ ہوں خواہ امریکہ پلٹ جب ان کی رہائش گاہ اورادارہ منہاج القرآن پہ معمولی مسلہ کو بنیاد بنا کر ان کے عقیدت مندوں پہ گولیاں برسائی جائیں14 لوگوں کو موت کی نیند اور لگبھگ 90 لوگوں کو گھائل کر کے ان سے FIR کے اندراج کا حق بھی چھین لیا جائے اور ان کے احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد FIR تو درج کر لی جائے لیکن انویسٹی گیشن سے پرہیز کیا جائے تو وہ انصاف لینے کی غرض سے کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں ؟؟؟ پاکستانی شہریت کا حامل شخص حق طلبی کی خاطر کس جانب نظریں اٹھائے حالانکہ گزشتہ 20 دن سے انصاف حاصل کرنے کا رونا تو رویا جا رہا لیکن انصاف کہاں ملتا ہے جگہ بتا دو ۔

۔۔
اب کپتان سے نہائت معذرت کے ساتھ آپکی کردار کشی میرے قلم کی بدولت نہیں بلکہ میرے ہی کچھ بہن بھائیوں کے ذہنوں پہ نقش ہے لیکن میں التجا کرتا چلوں 1992ء میں بیشک پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن کرکٹ کے میدان میں استفادہ خان صاحب کی حکمت عملی سے لیا جا رہا تھا اور اسی حکمت عملی کے باعث ورلڈ کپ جیتنے کی نوید سننے کو ملی۔

رہی بات شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی تو بیشک یہ ہسپتال پاکستانیوں کی مدد سے ہی اس قابل بنا جہاں بغیر سفارش غریب اور امیر کویکسر علاج کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جس کی مثال پاکستان میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ چلتے ہیں انتخابات میں دھاندلی کی جانب آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ کپتان گزشتہ 14 ماہ سے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف نہ صرف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ پٹیشن بھی دائر کروا چکے ہیں لیکن بجائے مقدمہ کی شنوائی ہو مقدمات کو سنے بغیرہی خارج کردیا گیااب خودی بتائیں کہ جس ملک میں انصاف نہ ملے وہاں کیا کیا جائے؟؟؟
افواج پاکستان کے بجائے پہلے پاکستانی میڈیا کی بات کرتے ہیں تو کیا 70 چینل میں سے صرف 6 یا 8 چینل ہی بکاؤ ہیں جوظلم و بربریت براہ راست پاکستان کے رعایا کو دکھا رہے ہیں؟؟؟ کیا وہ چینل صاف اور شفاف ہیں جو حکومت وقت کی تعریفیں اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی نہ صرف تذلیل بلکہ افواج پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ریاستی دہشت گرد قرار دینے کے لیے کوشاں ہیں ؟؟؟
اب بات کرتے ہیں افواج پاکستان کی یہ ملک کے بیٹے، یہ اقبال کے شاہین جو ہر ہر لمحہ پاکستان کو قائم و دائم رکھنے کی غرض سے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور ہر وقت صرف اور صرف پاکستانیوں کی خاطر سرحدوں کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں بلکہ ہماری آزادی کی خاطر شہادت کو بخوشی گلے لگا لیتے ہیں اور اس وقت اپنے گھر بار کے بارے میں نہیں سوچتے کہ ان کا بھی کوئی انتظار کر رہا ہو گا لیکن آج ہم اس قدر بے حس اور خود غرض ہو چکے ہیں کہ انہی فرشتہ صفت مہربانوں پہ گھٹیا ترین الزامات لگا رہے ہیں اور جبکہ سابق سپاہ سالار سید پرویز مشرف آج بھی عدالتوں میں اپنے خلاف درج مقدمات کی تاریخیں بھگت رہے ہیں لیکن دوسری جانب ہم ان کے تانے بانے موجودہ سپہ سالار سے ملاکرنہ صرف جنرل رحیل شریف کی تذلیل بلکہ ان کے گھرانے کے شہیدوں پہ الزامات لگا رہے ہیں جنہوں نے صرف اور صرف ملک و قوم کی حفاظت کے لیے جان دینے سے بھی گریز نہ کیاجبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے فوجی غدار نہیں ہوتا۔

۔۔
اگر جمہوریت کی بات کریں تو بد قسمتی سے پاکستان میں بسنے والے 80% لوگ نہ صرف لفظ جمہوریت سے نا آشنا ہیں بلکہ جمہوریت پہ عائد ذمہ داریوں سے مکمل طور پر ناواقف بھی ہیں۔جمہوری حکومتیں عدلیہ، افواج، صحافت، پولیس، صحت ، تعلیم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی پہ حکمرانی صرف اور صرف ملک و قوم کی حفاظت، سہولیات اور انصاف کی بروقت فراہمی کے لیئے کرتی ہیں لیکن پاکستانی جمہوریت کی بات کریں تو یہاں لوگوں کے گلے کاٹ دیے جائیں : پارلیمینٹ کی سپر میسی، یہاں پر عورتوں کی عزت لٹ جائے :پارلیمینٹ کی سپر میسی، یہاں لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جائے: پارلیمینٹ کی سپر میسی، یہاں غریب انصاف کی راہیں تکتے تکتے مر جائیں: جمہوریت زندہ باد۔

جمہوریت تو جمہور کی منشاء کا نام ہے ، نہ آکاش کی قلم کا نام ، نہ آکاش کی شکل کا نام۔موجودہ جمہوری حکومت اپنے رعایا کو سہولیات تو نہ دے سکی لیکن ایٹمی انرجی کے گیت ضرور گنگنا رہی ہے حالانکہ تاریخی حوالا جات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایٹمی بمب بنانے کی شروعات 1974ء میں کی گئی جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب ( موجدایٹم بم/ سائنسدان) ، ذوالفقار علی بھٹو صاحب ( سابق وزیر اعظم )، جنرل (ر) ٹکا خان صاحب (سابق چیف آف آرمی اسٹاف) اور جنرل محمد ضیا الحق شہید(سابق چیف آف آرمی اسٹاف) کی مرحونِ منت ہے۔

اور اگر 06 اپریل1998ء کو غوری میزائل کاکامیاب تجربہ کیا گیا یا 1998 ء میں بھارت کے دوسری بار ایٹمی دھماکے کے منہ توڑ جواب میں 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکہ کر دکھایا تو اس کا سہرا صرف اور صرف اس وقت کے منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کے سر نہیں سجتا بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب ( موجدایٹم بم/ سائنسدان) ، اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل(ر) سید پرویز مشرف صاحب بھی برابر کے حقدارہیں۔
آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے عزیز ہم وطنو خدارا خواب خرگوش سے بیدار ہو جاؤاور اپنے ملک و قوم کی حفاظت اور بہتری کے لیئے غفلت کی بجائے عقل و شعور کا دامن تھام لو بیشک آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :