
کتّا دریا کی طرف گیا ہی کیوں تھا؟
ہفتہ 12 ستمبر 2020

کوثر عباس
(جاری ہے)
نبی کریم اور خلفائے راشدین کا سنہری دور اس کا شاہد ہے ۔
سزا دینے کا مقصد کسی انسان کو تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کو ممکنہ تکلیف سے بچانا ہوتا ہے۔
جنرل ضیا کے دور میں ایک بچہ اغوا ہوا جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا ، قاتل گرفتار کیے گئے اور انہیں فیروز پور روڈ( لاہور) میں سرعام پھانسی دی گئی جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا ، اس کے بعد مدتوں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ۔کل جب قصور میں زینب کے ساتھ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا تو بھی عوام کو ضیا دور کا وہی واقعہ یاد آیا اور آج جب ایک ماں کو اس کی اولاد کے سامنے تار تار کیا گیا تب بھی لوگوں کو وہی واقعہ اور اس کے ثمرات یا د آنے لگے ۔ایک بات طے ہے اور بے شک اس کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیں کہ جرائم میں کمی یا روک تھام کا جو کام پولیس اور عدلیہ کی نفری اور تنخواہیں بڑھا کر نہیں کیا جا سکاوہ کام کسی مجرم کو سرعام عبرت ناک سزا دے کیا جا سکتا ہے ۔ جب بھی اس واقعے کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اسے ”آمر کا فعل “ کہہ کر بحث کا رخ ہی یکسر تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔وطن عزیز کا دانشور بھی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ چاہ کر بھی قرآن مجید کا مذاق تو اڑا نہیں سکتا لہذا اس طرح کے واقعات کو مولوی ، مدرسے یا ضیا کے کھاتے میں ڈال کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے ۔حکمران بھی اسی منافقت کا شکار ہیں ، جب سوال ہو کہ اقتدار کسے دیا جائے گا تو کہتے ہیں جسے عوام کی اکثریت ووٹ ڈالے گی لیکن جب معاملہ سرعام سزاوٴں کا ہو تو اسی اکثریت کی رائے کو پسِ پشت ڈال کر آٹے میں نمک برابر دانشوروں کی سنی جاتی ہے یا مغربی این جی اوز کی ۔سچ ہے کہ مانگ کر کھانے والا اپنے فیصلوں میں کیونکر آزاد ہو سکتا ہے؟
بحث کا دوسرا پہلو جرم ہونے کے بعد عوام اور انتظامیہ کے رویے کے متعلق ہے ۔حکمران کا کام یہ ہے کہ جرم روکنے کی پوری کوشش کرے ۔ اگر پھر بھی جرم ہو جائے تو مجرم کو قرارواقعی سزا دے ،یہی حاکم وقت کا فریضہ ہے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسے واقعات ہوئے لیکن فرق یہ ہے کہ وہاں مجرموں کو نمونہ عبرت بنایا گیا ۔آج بھی اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو دیکھا جائے گا کہ حاکم وقت کا ردعمل کیا تھا ؟مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ لاہور موٹروے کیس میں انتظامیہ کا ردعمل بالکل معقول نہیں تھا۔عورت دائیں بائیں فون گھما رہی ہے اور اسے جواب دیا جا رہا ہے کہ یہ ان کا ایریا نہیں ہے ۔جب جرم ہو گیا تو یہ بیان دیا گیا کہ غلطی عورت کی تھی ، اسے آدھی رات کو باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا ، پٹرول چیک کرکے نکلنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ ۔کوئی مہذب انسان یا معاشرہ اس طرح کی گفتگو کا حامل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر آپ کو اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے تو ماننا پڑے گا کہ غلطی عورت کی تھی ۔ آئیے ساتھ مل اعتراضات کا ایک چارٹ بناتے ہیں کہ وہ اکیلی کیوں نکلی تھی ؟ ماں کا کیا کام ہے کہ بچوں کے ساتھ جائے ؟ اس نے بچوں کو وہیں کیوں نہ چھوڑا؟اس نے باڈی گارڈ کیوں نہیں رکھے تھے ؟اس نے کار کے شیشے سٹیل کے کیوں نہیں لگوائے تھے؟اس نے پاکستان کو فرانس کیوں سمجھ لیا تھا ؟اس نے یہ تصور بھی کیوں کر لیا تھا کہ ریاست مدینہ وجود میں آ گئی ہے ؟ اس نے کو ئی پستول یا گن وغیرہ کیوں نہیں خریدی تھی ؟اس نے عزت کے لٹیروں کو قانون سے کیوں نہیں ڈرایا ؟وہ جہاز سے بھی لاہور آ سکتی تھی ؟
سب سے اہم بات کہ اس نے یہ واقعہ پڑھا ہی کیوں تھا کہ دریا کے کنارے کتّا مر جائے تو ذمہ دار حاکم وقت ہوتا ہے ؟وہ چودہ سو سال پرانے دور میں کیوں زندہ تھی ؟اسے یہ کیوں معلوم نہیں تھا کہ اب حاکم خاموش رہتا ہے اور اس کے وزیرذمہ دار افسروں کا دفاع کرتے ہیں ؟اسے یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ پرانے وقتوں کی بات تھی جب حاکم ذمہ دارہوتا تھا ، اب سوال یہ نہیں ہے کہ حاکم وقت ذمہ دار ہے یا نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کا سوال یہ ہے کہ کتا دریا کی طرف گیا ہی کیوں تھا ؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.