خوشی کا فروغ ریاست مدینہ اور جدید سائنس کی روشنی میں

بدھ 22 ستمبر 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

ڈاکٹر فلپ ٹوبلر اپنے آفس میں موجود تھا ۔ اس کے سامنے سوئٹزرلینڈ کے مشہور اور امیر عورت بیٹھی تھی ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے ۔ڈاکٹر نے ایک نظر عورت کے خاوند کی طرف دیکھا ۔ خاوند نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ڈاکٹر صاحب ! ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں۔اگر زندگی میں سب کچھ ہے تو پھر یہ خوش کیوں نہیں ؟ڈاکٹر فلپ ٹوبلر نے ایک نظر عورت کی طرف دیکھا اور پوچھا:تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے ؟ عورت نے جواب دیا:میں نہیں جانتی۔

ہرکوئی جانتا ہے کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن میں پھر بھی خوش نہیں ہوں۔ڈاکٹر نے گہری نظروں سے انہیں دیکھا اور بولا : اس کے لیے آپ کو کچھ کام کرنا ہوں گے۔ خوشی انسان کے اندر جن چارہارمونز کے خارج ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ کچھ کام کرنے سے پیدا ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)


ایک ہارمون کا نام اینڈروفنس(Endorphins) ہے ۔یہ ورزش ، کام اور مزاح کے وقت وقت خارج ہوتا ہے ۔

سائنس کی دنیا میں اسے قدرتی ”پین کلر“ کے طور پر جانا جاتا ہے ۔اسی لیے ایتھلیٹ ورزش یا کھیلتے وقت بڑے سے بڑے غم کو بھول جاتا ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ حادثات وغیرہ کے اثرات ایتھلیٹ پر کم سے کم سے ہوتے ہیں ۔آپ نے اکثر یہ بھی سنا ہو گا کہ فلاں بندہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک ہے ، اس نے اتنے بڑے حادثے کو آسانی سے جھیل لیا۔یہ مضبوط اعصاب ورزش یا کام کا نتیجہ ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی کسی حادثے کا شکار ہو جائے توکوچ کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے جلد از جلد واپس میدان میں واپس لایا جائے۔جدید سائنس کے مطابق خوشی پیدا کرنے والے اس ہارمون کی خوراک کے لیے روزانہ کم از کم بیسمنٹ ایکسرسائز کرنا اورمزاح ضروری ہے ۔
دوسرے ہارمون کا نام ڈوپامائن (Dopamine)ہے ۔کبھی آپ نے سوچا کہ ہم جب بھی کوئی کام پورا کرتے ہیں، کوئی نیا موبائل یا گاڑی وغیرہ خریدتے ہیں یا دفتر اور گھر وغیرہ میں ہمارے کام کی تعریف کی جاتی ہے تو ہم خوش کیوں ہو جاتے ہیں ؟کیونکہ اس سے ہمارا جسم ڈوپامائین کو خارج کرتا ہے جس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔

اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عورتیں عموماً گھر کے کام کو بوجھ کیوں سمجھتی ہیں اور انہیں خوشی محسوس کیوں نہیں ہوتی؟کیونکہ ہم ان کے کام کے سراہتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعریف کرتے ہیں بلکہ ہم نے ان کاموں کو ان کی اوّلین ذمہ داری سمجھا ہوا ہے ۔اگر مرد حضرات صرف اسی نقطے کو سمجھ لیں تو گھر جنّت بن سکتا ہے۔
تیسرے ہارمون کا نام سیروٹونائن (Serotonin)ہے ۔

جب ہم دوسروں کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں ، فیملی یا دوستوں کے ساتھ آوٴٹنگ کرتے ہیں ،کسی کو معلومات دیتے ہیں ، رستہ دکھاتے ہیں اور کسی بھی قسم کے فلاحِ عامہ کے لیے کوئی کام کرتے ہیں تو یہ اس وقت یہی سیروٹونائن پیدا ہوتا ہے اور ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔سائنس کی دنیا میں چوتھا ہارمون آکسی ٹوسین(Oxytocin) کے نام سے جانا جاتا ہے۔کسی سے گلے ملنے سے یا ہاتھ ملانے سے ، کسی کو گڈبائے کہنے سے یاہائے کہنے سے اور کسی کو سلام دینے یا سلام کا جواب دینے سے جسم سے آکسی ٹوسین خارج ہوتا ہے جو خوشی کا موجب بنتا ہے۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ماوٴں کا اپنے بچوں کو دودھ پلاتے وقت ایک بے پایاں خوشگواری کا احساس کرنا بھی اسی ہارمون کے اخراج کا نتیجہ ہے۔
یہ تحقیق واقعی بڑی کارآمد ہے اور اس نے مغربی دنیا کے علاوہ مسلمانوں کو بھی بڑا متاثر کیا ۔ہمارے ہاں اسلام بیزار طبقے اور دیسی لبرلز نے (جیسا کہ ان کی عادت بھی یہی ہے )باقی تحقیقات کو طرح اس تحقیق کو بھی عالم اسلام کی بھلائی کی بجائے طعنہ زنی اور احساسِ کمتری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس جانب برسوں پہلے رہنمائی فر مادی تھی ۔

اس میں ایک گونہ قصور ان مسلمان سکالرز کا بھی ہے جنہوں نے اپنا زور سیرت کے ان پہلووٴں کا اجاگر کرنے کی بجائے تفرقہ بازی اور تسہل پسندی کی نظر کیے رکھاحالانکہ ریاست مدینہ میں خوشی کے فروغ کے لیے ان چاروں ہارمونز کے اخراج کے لیے باقاعدہ رہنمائی موجود ہے۔
مثلاً خوشی کے پہلے ہارمون(Endorphins) کو پیدا کرنے کے لیے اسلام نے ورزش کی جانب زور دیا ، ریاست مدینہ میں نبی کریم ﷺ باقاعدہ ورزش یا پریکٹس کی نگرانی کیا کرتے تھے،تیراندازی اورکبڈی وغیرہ کے مقابلے ہوتے تھے ، آپ ﷺ اپنے صحابہ اور اہل خانہ سے مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ۔

دوسرے ہارمون (Dopamine) کا سب سے بڑا سورس تعریف اور مدحت ہے ۔ نبی کریم ﷺنے ریاست مدینہ میں تعریف و ستائش کو باقاعدہ اپنے عمل سے فروغ دیا ۔آپ ﷺ گھر کے اندر ازواج مطہرات اور گھر سے باہر اپنے صحابہ کرام کو اچھے کاموں پر نہ صرف داد دیتے تھے بلکہ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔آپ ﷺ نے تیسرے ہارمون (Serotonin)کے سورسز کی جانب بھی رہنمائی کی ۔

آپ ﷺ آوٴٹنگ کے لیے اپنی فیملی کو سفر پر ساتھ لے جاتے ، ایک مختص وقت صحابہ کرام کے ساتھ بتاتے ، سوالوں کے جواب دیتے اور ہر قسم کی رہنمائی اور فلاح عامہ کے کام نہ صرف خود کرتے تھے بلکہ اوروں کو ترغیب بھی دیا کرتے تھے اور یہی کام خوشی کا تیسرا ہارمون پیدا کرتے ہیں۔آخر میں چوتھے ہارمون (Oxytocin) کی بات کریں تو اس کا بھی وافراہتمام موجود تھا ۔ سلام دینا ، خوش آمدید کہنا ، الوداع کرنا ، معانقہ کرنا اور مصافحہ کرنابلکہ یوں کہیے کہ خوشی کا چوتھا ہارمون پیدا کرنے کے لیے وہ کون سا سورس ہے جو ریاست مدینہ میں نہیں ملتا؟لہذا مرعوب ہونے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت طیبہ پر ریسرچ کی جائے اور دنیا کواسلام کے نور سے منور کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :