پاک بحریہ کی وطن عزیز کیلئے کثیر الجہتی خدمات

ہفتہ 14 اگست 2021

Khalid Farooq

خالد فاروق

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول پاکستان کے بعد اپنی مختصر زندگی میں پاکستان کے ہر شعبے اور ادارے کی خبر گیری کی، ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے افواج پاکستان سے مشترکہ اور الگ الگ خطاب کیا۔ بانی پاکستان سمندری حدود کی حفاظت اور بحری فوج کی اہمیت کا پورا ادارک رکھتے تھے اس لیے انہوں نے 23 جنوری 1948 کو نو تشکیل کردہ پاک بحریہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا”آپ کو کسی بیرونی مدد کی توقع کیے بغیر اپنے بل بوتے پر تمام مشکلات اور خطرات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔

اگر ہم اپنا دفاع مضبوط بنانے میں ناکام ہوئے تو یہ دوسرے ممالک کو جارحیت کی دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ امن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور اس بنا پر جارحیت کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں سے یہ خیال نکال دیا جائے“۔

(جاری ہے)


 پاک بحریہ نے اپنے قائد کے الفاظ کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کے ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ساحل کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

پاک بحریہ نے جنگ اور امن میں ہر موقع پر شاندار کامیابیوں سے قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں کیا جانے والا’آپریشن دوارکا‘ پاکستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب اور پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ 1965ء کی جنگ میں جب دشمن کراچی پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا تو پاک بحریہ کے چاک و چوبند جوانوں نے دشمن کو کوئی حرکت کرنے کا موقع دیے بغیر اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

پاکستان کی واحد آبدوز غازی نے دشمن بحریہ کی کمر توڑ دی اور ثابت کر دیا کہ پاک بحریہ اپنے پاک وطن کی حفاظت کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ روایتی مشکلات اور خطرات کے علاوہ نئے دور میں پیدا ہونے والے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاک بحریہ ہمہ وقت مشقوں میں بھی مصروف رہتی ہے۔ دیگر ممالک کی بحری افواج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کی استعداد کار بڑھانے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں مدد ملتی ہے۔


  پاک بحریہ نے میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجر سے نبرد آزما ہونے کیلئے ’سٹیٹ آف دی آرٹ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر‘کے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاک بحریہ نے میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، پاکستان کسٹمز اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ کی جانے والی مشترکہ کاروائیوں میں منشیات اور دیگر غیر قانونی کاروبار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اربوں روپے کی منشیات تحویل میں لی ہیں۔


 بلیو اکانومی کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے بہت اہم ہوتی ہے۔ بلیو اکانومی کا مطلب سمندر کے ذریعے تجارت اور سمندری وسائل سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی 80 فیصد تجارت سمندری راستے کے ذریعے ہوتی ہے جس کا سالانہ حجم 1.5 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سمندر جیسی نعمت سے نوازا ہے جو پاکستان کی معیشت کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

پاکستان اب بلیو اکانومی پہ بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، بلیو اکانومی سے جڑے کئی منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاک بحریہ ہر حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔
 پاکستان کے دوست ملک چین کی جانب سے شروع کردہ ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے کے سب سے اہم حصے’سی پیک‘کے تناظر میں پاک بحریہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ سی پیک پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستانی معیشت کی خوشحالی اور ترقی سی پیک سے جڑی ہوئی ہے.گوادرپورٹ سی پیک کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔

سی پیک اور گوادر پورٹ سے پوری طرح استفادہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سمندری پانیوں میں تجارت کی غرض سے آنے والے جہازوں کی مکمل حفاظت یقینی بنائی جائے اور ان کو ہر طرح کے منظم اور غیر منظم خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے پاک بحریہ نے سپیشل ٹاسک فورس 88 قائم کی ہے۔ جو سی پیک کے سمندری راستے کی حفاظت کرے گی۔

پاک بحریہ کی طرف سے سی پیک کی حفاظت کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر پاکستان میں تعینات چینی سفیر نونگ رونگ نے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
 پاکستانی سمندری حدود اور سمندری راستوں کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری بطریق احسن نبھانے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ ساحل سمندر کی حفاظت، ایکو سسٹم کی بحالی، سمندری آلودگی کے خاتمے، انسانی ہمدردی اور ساحلی علاقوں میں صحت و تعلیم کے فروغ کیلئے بھی قابل تحسین اقدامات کر رہی ہے۔

ساحلِ سمندر کو کٹاؤ سے بچانے، سمندری طوفان کی شدت کم کرنے اور سمندری حیات کاتحفظ ممکن بنانے کیلئے پاک بحریہ نے 2016 ء میں مینگروز کی شجر کاری مہم شروع کی۔ مینگروز کے درخت نمکین پانی میں زندہ رہنے اور نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2016 ء میں شروع کی گئی مینگروز شجر کاری مہم کو چھٹے سال بھی جاری رکھا گیا اور پاک بحریہ کی جانب سے اس سال 30 لاکھ نئے درخت لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کے 6 فیصد حصے پہ جنگلات موجود ہیں جن میں 3 فیصد رقبہ مینگروز کے جنگلات پہ مشتمل ہے۔ فی الوقت پاکستان میں موجود مینگروز کا جنگل دنیا کے دس بڑے مینگروز کے جنگلات میں شامل ہے جو سندھ اور بلوچستان میں ساحل کے ساتھ 6 لاکھ ہیکٹر رقبے پہ مشتمل ہے۔ پاک بحریہ کی جانب سے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام اور پلاسٹک کا پائیدار نعم البدل تلاش کرنے کے حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔

پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی سمندری حیات کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کیلئے بھی کئی خطرات پیدا کر رہی ہے۔ پاک بحریہ میں یوم ماحولیات ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس اور متعلقہ اداروں کے درمیان سمندری ماحول سے متعلق آگاہی کو فروغ دینا ہے۔
 پاک بحریہ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا دائرہ کار کراچی اور اسلام آباد کے بعد پاکستان کے ساحلی علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔

ایجوکیشنل کمپلیکس مکران، کیڈٹ کالج اورماڑہ، بحریہ کالج اورماڑہ، بحریہ ماڈل کالج گوادر، بحریہ ماڈل اسکول تربت اور جیونی جیسے ادارے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ نے بڑی تعداد میں سرکاری اسکولوں کی سرپرستی بھی اپنے ذمے لے لی ہے۔ ان اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے 70 فیصد سے زائد طلباء و طالبات مقامی ہیں جن کو پاکستان کے بڑے شہروں اور اداروں جیسا معیار تعلیم اور ماحول فراہم کیا جا رہا ہے۔

اسکولوں اور کالجوں کے ذریعے پاک بحریہ نے مقامی آبادی کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام و انتظام سے مقامی آبادی کو علم کی نعمت ملی ہے اور ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہوا ہے۔ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اور وہ وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی کی نئی منزلوں تک لے جانے کیلئے پر عزم ہیں۔

ان پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی روشنی عام ہونے کی وجہ سے تخریبی عناصر کو پسپا کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔
 پاک بحریہ نے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو ماہی گیری میں معاونت کرنے اور موسم کی جانکاری دینے کے ساتھ ساتھ صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کیلئے بھی فقید المثال اقدامات کیے ہیں۔ پاک بحریہ نے اورماڑہ میں سو بستروں پر مشتمل جدید اسپتال قائم کیا ہے۔

جس میں علاج معالجے اور تشخیص کی اعلیٰ سہولیات کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کوروزگار کی فراہمی بھی ممکن بنائی ہے۔ پاک بحریہ نے لسبیلہ کی تحصیل اتھل میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کو 30 لاکھ کا طبی سامان عطیہ کیا۔ سامان میں ادویات، طبی آلات اور ائیر کنڈیشنر شامل ہیں۔ مقامی آبادی اور عمائدین کی طرف سے پاک بحریہ کے اقدام کو سراہا گیا۔ اس کے علاہ پاک بحریہ کی جانب سے ساحلی علاقوں میں مفت میڈیکل کیمپس لگائے جاتے ہیں جہاں مقامی آبادی کو مفت علاج اور ادویات کی سہولت دی جاتی ہے۔

شدید مرض میں مبتلا مریضوں کو پاک بحریہ کے بڑے اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ وبائی امراض جیسا کہ کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں پاک بحریہ کی جانب سے اسپیشل کیمپس لگا کر لوگوں کو وباء سے نمٹنے کے حوالے سے طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ طبی مشورے بھی دیے جاتے ہیں۔ پاک بحریہ کی طرف سے داد رسی پر لوگ قومی ادارے کے شکر گزار ہیں۔ پاک بحریہ کے ان اقدامات کی بدولت پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

ان میں ملک و قوم کے ساتھ اپنائیت کے احساس اور اداروں پہ اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
 پاک بحریہ اپنے ہم وطنوں کی مشکلات کم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت دنیا کے دیگر آفت زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ رواں برس جنوری فروری میں خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ افریقی ممالک (جبوتی، سوڈان، نائیجر اور بینائن) کی عوام کو پاک بحریہ کے بحری جہاز پی این ایس نصر کے ذریعے ہزار ٹن سے زائد اشیائے خوردونوش پہنچائی گئیں۔

افریقی ممالک کے حکام اور عوام کی جانب سے پاک بحریہ کے خیر سگالی دوروں اور امداد کیلئے شکریہ ادا کیا گیا۔ پاک بحریہ کے انسانی ہمدردی کے مشنز اور کامیاب پورٹ کالز کی بدولت حکومت پاکستان کو افریقی ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی و سفارتی تعلقات استوار کرنے میں بھی معاونت ملی ہے۔ یوں پاکستان کے ایک قومی ادارے کے کردار سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تشخص میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ پاک بحریہ کی شب وروز خدمات اور شاندار کارناموں کی وجہ سے پوری قوم پاک بحریہ پہ فخر کرتی ہے۔ پاک بحریہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے جن کا ملکی و غیر ملکی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :