1971 کی جنگ اور آبدوز ہنگور

جمعرات 9 دسمبر 2021

Khalid Farooq

خالد فاروق

پاک بحریہ کی جانب سے ہر سال 9 دسمبر کو پورے جوش وخروش کے ساتھ ہنگور ڈے منایا جاتا ہے اور اس دن کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 2021 میں 50 واں ہنگور ڈے منایا جا رہا ہے۔ ہنگور ڈے ان غازیوں اور جانبازوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بحری و دفاعی لحاظ سے ایک ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا۔

آبدوز ہنگور جنگ عظیم دوم کے بعد کسی بحری جنگی جہاز کو ڈبونے والی پہلی روایتی آبدوز کا اعزاز رکھتی ہے۔ ہنگور آبدوز کی کاری ضرب سے بھارتی بحریہ کا جہاز آئی این ایس ککری اپنے 18 افسران اور 176 سیلرز سمیت گہرے پانیوں میں غرق ہو گیا تھا۔
 آبدوزیں جدید دور میں بحری جنگ کیلئے انتہائی موثر ہتھیار ہیں۔ جنگ عظیم اوّل میں جرمنی نے آبدوز کا استعمال کیا اور اس نئے ہتھیار سے جرمن بحریہ نے دشمنوں کو بھاری نقصان سے دو چار کیا۔

(جاری ہے)

بعد ازاں، دیگر طاقتور ممالک نے بھی آبدوزیں بنانا اور استعمال کرنا شروع کر دیں۔ جنگ عظیم دوم میں بھی آبدوز ایک خطرناک ہتھیار کے طور پہ سامنے آئی۔ آبدوز کا بنیادی کام سمندروں میں دشمن کے جہازوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا اور اسے محدود کرنا ہے اس کے علاوہ دشمن کی جانب سے بچھائی گئی سمندری مائنز کا صفایا کرنا بھی آبدوز کا اہم کردار ہے، تاہم کسی بھی دشمن سے نبردآزما ہونے کے لیے آبدوز تارپیڈوز اور دیگر ہتھیاروں سے بھی لیس ہوتی ہے اور اسی خوف سے دشمن کے بحری جہاز آب دوز کی موجودگی میں بہت احتیاط سے حرکت کرتے ہیں۔



 پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے 1964 میں پہلی امریکی ساختہ آبدوز اپنے بحری بیڑے میں شامل کی، جسے آبدوز غازی کا نام دیا گیا۔ آبدوز غازی نے 8 ستمبر 1965 کو پاک بحریہ کے آپریشن دوارکا کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آبدوز غازی کے خوف سے بھارتی بحریہ نے آپریشن دوارکا میں حصہ لینے والے پاکستانی بحری جنگی جہازوں کا پیچھا تک نہ کیا۔

1965کی جنگ میں آبدوز غازی کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مزید آبدوزوں کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بہت ہی قلیل عرصہ میں مزید تین آبدوزیں پاک بحریہ کا حصہ بن گئیں جن کے نام شوشک، مانگرو اور ہنگور رکھے گئے۔ آبدوز ہنگور کو 1969 میں کمانڈر احمد تسنیم اپنی کمان میں فرانس سے لائے تھے احمد تسنیم 1971-72 میں آبدوز ہنگور کے کمانڈنگ افسر تھے جو بعد ازاں وائس ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔


1971 کی جنگ میں جنگ ستمبر کی ''غازی'' اور پاکستان کا فخر پی این ایس غازی کو مشرقی پاکستان میں تعینات کیا گیا تھا جب کہ آبدوز ہنگور کو کراچی بندر گاہ کو بھارتی بحریہ کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ 9 دسمبر کے دن سہ پہر کے بعد آبدوز ہنگور کے سینسرز پر نقل و حرکت کو نوٹ کیا گیا۔ سگنلز کا جائزہ لینے پہ پتا چلا کہ بھارتی بحریہ کے دو آبدوز شکن بحری جنگی جہاز آئی این ایس ککری اور کرپان "ڈھونڈو اور تباہ کرو" کے مشن پر تھے۔

ہنگور آبدوز کے چاق و چوبند جوانوں نے شکاریوں کا شکار کرنے کی ٹھان لی۔ کمانڈر احمد تسنیم کے اشارے پر آبدوز ہنگور نے پہلے آئی این ایس کرپان کو لاک کر کے تارپیڈو کا نشانہ بنانا چاہا مگر گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے تارپیڈو اپنے ٹارگٹ کو تباہ نہ کر سکا۔ اس حملے کی وجہ سے ککری کو ہنگور آبدوز کی پوزیشن کا اندازہ ہو گیا تھا اور اس سے پہلے کہ ککری کوئی کارروائی کرتا ہنگور آبدوز نے ککری کو اپنے نشانے پر لے کر ایک اور تارپیڈو داغ دیا۔

تارپیڈو سیدھا ککری کے 60 ٹن بارودی مواد پر جا لگا اور ایک زور دار دھماکے سے ککری بحری جہاز کے پرخچے اڑ گئے اور صرف دو منٹ میں یہ جہاز اپنے 18 افسران اور 176 سیلرز سمیت سمندر برد ہو گیا۔ بھارتی جہاز ککری کو ڈبونے کا یہ شاندار کارنامہ بھارت کے مغربی ساحل پر ڈیو ہیڈ (Diu Head) کے جنوب مشرق میں 30 میل دور وقوع پزیر ہوا تھا۔ ککری کو غرقاب کرنے کے بعد آبدوز ہنگور نے اپنی توجہ ایک بار پھر آئی این ایس کرپان کی طرف کر لی اور اسے کسی بھی جوابی کاروائی سے باز رکھنے کیلئے ایک اور تارپیڈو سے حملہ کیا جس نے کرپان کے عقبی حصے کو نقصان پہنچایا اور اسے واپس بھاگنے پہ مجبور کر دیا۔


ہنگور آبدوز کے ہاتھوں بھاری نقصان اور ہزیمت اٹھانے کے بعد دشمن آگ بگولہ ہو گیا اور ہر صورت میں ہنگور کو تباہ کرنے کی غرض سے آپریشن فالکن شروع کیا۔ بھارتی بحریہ نے پی این ایس ہنگور کو تباہ کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ آپریشن فالکن 9 دسمبر کی رات سے لے کر 13 دسمبر کی رات تک جاری رہا ان چار دنوں میں بھارتی بحریہ نے ساحل سمندر سے تلاش کے ساتھ ساتھ آبدوز شکن بحری جہاز، آبدوز شکن ہوائی جہاز، آبدوز شکن ''سی کنگ'' ہیلی کاپٹرز کو صرف اور صرف ایک ذمہ داری سونپی کہ وہ ہنگور آبدوز کو تباہ کریں مگر اللہ کی مدد سے ہنگور آبدوز صحیح سلامت 13 دسمبر کی رات کو کراچی واپس پہنچ گئی۔

بھارتی بحریہ کے ہوائی جہازوں نے ہنگور آبدوز کو وہاں تک تلاش کیا جہاں تک وہ پاکستان فضائیہ کی زد سے بچ سکتے تھے ان ناکام کوششوں میں بھارت نے ایک آبدوز شکن ہوائی جہاز کا نقصان بھی برداشت کیا جو نہ معلوم وجہ سے اپنے تمام عملے سمیت سمندر برد ہو گیا۔
آپریشن فالکن کی تفصیلات کا اعتراف بھارتی بحریہ کے وائس ایڈمرل (ر) رائے نے اپنی کتاب '' بحر ہند میں جنگ'' میں کیا ہے۔

ہنگور آبدوز 9 دسمبر کی کامیابی کے بعد 13 دسمبر کو وطن لوٹ آئی۔ ہنگور آبدوز کے ہیروز کو شاندار کامیابی کے اعتراف میں 4 ستارہ جرأت، 6 تمغہ جرأت اور 14امتیازی اسناد سے نوازا گیا جو پاک بحریہ کے کسی بھی یونٹ کو دیے جانے والے اعزازات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 1970 سے 2006 تک اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد ہنگور آبدوز کو پاک نیوی کے میری ٹائم میوزیم کراچی میں نصب کر دیا گیا جس پر اس مشن اور عملے کی تفصیلات درج ہیں جو آنے والی نسلوں کو اس تاریخی دن اور لازوال شجاعت کی کہانی سناتی رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :