رومن اردو ایک محبوب قاتل

منگل 15 فروری 2022

Khalid Farooq

خالد فاروق

ہم اپنی موج مستی اور بے پروائی میں کئی ایسے کام کرتے چلے جاتے ہیں جن کے نقصان اور مضر اثرات سے ہم یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ ہماری نظر یا فہم و فراست میں وہ کام بالکل بے ضرر ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کا اثر بہت بڑا اور بہت برا ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک کام رومن اردو کا استعمال ہے، ہم میں سے اکثریت روزانہ کی بنیاد پر بغیر سوچے سمجھے پیغامات کے تبادلے، گپ شپ اور تجزیوں و تبصروں کےلیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر رومن اردو لکھتے ہیں۔

اردو الفاظ کو اردو حروف تہجی (ا،ب،پ) میں لکھنے کے بجائے a,b,c یعنی انگریزی حروف تہجی میں لکھنا رومن اردو کہلاتا ہے۔ اکثر لوگوں نے بٹنوں والے چھوٹے موبائلز اور کمپیوٹر کی بورڈ انگریزی میں ہونے کی وجہ سے رومن اردو لکھنی شروع کی اور اب اصل اردو لکھنے کی تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود وہ رومن اردو ہی استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ بہت سے لوگ اسے معمولی اور بے ضرر بات سمجھتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بات کو رومن رسم الخط میں لکھیں یا اردو رسم الخط میں کیا فرق پڑتا ہے۔ میں بھی جب رومن اردو استعمال کرتا تھا تو مجھے بھی کوئی خاص وجہ نظر نہ آتی تھی کہ کیوں میں رومن اردو استعمال نہ کروں۔ مجھے پہلی بار ڈاکٹر فرید الدین شہاب نے رومن اردو کے بجائے اصل اردو لکھنے کا کہا، ڈاکٹر فرید الدین شہاب کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اردو زبان میں شامل الفاظ کے معانی و ماخذات کے ساتھ الفاظ کے تاریخی سفر پر تحقیق کرتے ہیں۔

میں زندگی بھر ان کی تاکید اور مشورے کا شکر گزار رہوں گا۔ شروع میں رومن اردو کے بجائے اصل اردو لکھنا بہت دقت طلب اور وقت طلب محسوس ہوا مگر کچھ ہی دنوں میں مسلسل مشق (پریکٹس) کرنے سے لکھنے میں روانی پیدا ہو گئی۔ میں "ملٹی لنگوئل گوگل کی بورڈ" استعمال کرتا ہوں اس کہ خاص وجہ یہ ہے کہ جی بورڈ میں اردو کے تمام حروف تہجی ایک ہی صفحے پر ہیں دیگر کی بورڈز کی طرح دو صفحات پر نہیں کہ اوپر نیچے جا کر ڈھونڈے جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ مجھے جی بورڈ استعمال کرنا آسان لگتا ہے۔ انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر مشاہدہ کریں تو کافی  لوگ رومن اردو کے بجائے اصل اردو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے تاریخی ورثے سے محبت کار فرما ہے۔ رومن اردو لکھنے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر کئی نقصانات ہیں۔ رومن اردو لکھتے وقت ہم اپنی من مرضی کے ہجے (سپیلنگ) استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اردو الفاظ کے ہجے تو بھولتے ہی ہیں ساتھ میں انگریزی لکھتے ہوئے بھی دقت پیش آتی ہے۔

موبائل میں تو کسی لفظ کے ایک دو حروف لکھیں تو کی بورڈ پورا لفظ تجویز کر دیتا ہے مگر کبھی ہمیں کاغذ پر کچھ زبانی لکھنا پڑ جائے تو نہ اردو الفاظ کے ہجے یاد آتے ہیں اور نہ انگریزی الفاظ کی سپیلنگ۔ مختصراً یہ کہ رومن اردو کا استعمال طلبہ کےلیے  انتہائی نقصان دہ ہے اور یہ نقصان رومن اردو کے استعمال سے ہونے والے اصل نقصان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ رومن رسم الخط کو ہی رائج کر دیا جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے یہ ہی اقدام کیا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے عربی رسم الخط میں ترکی لکھنے کے بجائے رومن رسم الخط میں ترکی لکھنے کا فرمان جاری کر دیا تھا۔  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد خاص کر نئی نسل کےلیے عربی رسم الخط میں لکھی تمام کتب فقط یاد ماضی بن گئیں اور عجائب گھروں تک محدود ہو کر رہ گئیں۔

اگر آپ اردو زبان کے تمام شعری و نثری،  تاریخی و مذہبی سرمایے کو خیر باد کہنا چاہتے ہیں تو بسم اللّٰہ کریں اور رومن رسم الخط کو رائج کروا دیں مگر کوئی نادان ہی ایسا فیصلہ کرے گا۔ اگر ہم رومن رسم الخط کو رائج کرنے متحمل نہیں ہو سکتے تو پھر ہمیں روز مرہ کی ضرورت کےلیے بھی رومن اردو کا استعمال ترک کر کے اردو رسم الخط کو اپنا ہو گا۔ شروع میں یہ کام مشکل ضرور لگے گا مگر کچھ ہی دنوں میں آپ کو اس میں لطف آنے لگے گا اور آپ فخر کریں گے کہ آپ اپنی زبان، اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

بصورت دیگر آپ اپنی زبان کو زندہ درگور کرنے میں شریک ہوں گے۔ اب یا تو رومن اردو کو خیرباد کہہ لیں یا پھر اردو کے صدیوں کے علمی و ادبی سرمائے کو، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :