مشرق وسطیٰ میں ایک نئی دراڑ

ہفتہ 10 جون 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

عرب بہار سے لہولہان اور چیتھڑوں میں بٹے مشرق وسطیٰ کو ایک اور امتحان درپیش ہے۔ سعودی عرب‘ بحرین‘ مصر اور متحدہ عرب امارات نے اچانک قطر سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے اور اس طرح اسے خطے میں تنہا کردیا گیا۔ مصر کا الزام ہے کہ قطر دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ قطر نے ان الزامات کو غیر منصفانہ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے عربی نیوز چینل ’الجزیرہ‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی حالیہ تنازع کے بعد پیر کی شب قوم سے خطاب کرنے والے تھے‘ جسے کویت کے امیر کی درخواست پر روک دیا گیا۔

(جاری ہے)

اطلاعات تھیں کہ قطر کے امیر اپنے خطاب میں عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے تھے۔

عرب ممالک کا قطع تعلق کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد قطری وزارتِ خارجہ نے ابتدائی ردِ عمل یہ ظاہر کیا کہ یہ ممالک قطر کو اپنی ”باج گزار ریاست“ بنانا چاہتے ہیں۔
بہرحال یمن اور مالدیپ نے بھی قطر سے رابطے توڑ لئے ہیں اور سعودی عرب‘ بحرین اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے اپنے ہاں مقیم قطری شہریوں کو دو ہفتوں میں نکل جانے کو کہا ہے اور اپنے شہریوں پر بھی قطر جانے پابندی عائد کر دی ہے ۔

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ قطر آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کی حمایت کر رہا ہے اور ان دہشت گرد تنظیموں کو بڑھاوا دے رہا ہے‘ جبکہ ایران کا خیال ہے کہ یہ اچانک اور دور رس اثرات کی حامل تبدیلی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو ہفتے پہلے کئے گئے دورے کا نتیجہ ہے۔ ایران میں نیشنل سکیورٹی کمیشن کے سربراہ علی الدین نے قطر اور عرب ممالک کے درمیان تنازع کی جڑ امریکی صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو قرار دیا۔

دوسری طرف امریکی انویسٹی گیٹرز کا خیال ہے کہ روسی ہیکرز نے قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی تک رسائی حاصل کی اور ایک ایسی فیک نیوز رپورٹ پلانٹ کی جس کی وجہ سے خلیج کا پورا علاقہ بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں اس بات پر تحفظات پائے جاتے ہیں کہ روس امریکہ کے اتحادی ممالک میں سائبر ہیکنگ کا وہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے‘ جو گزشتہ سال امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اپنے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔

امریکی ایجنسیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ روس کے ان اقدامات کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنا ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر امریکہ کے پاس اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اصل میں یہ معاملہ جتنا پیچیدہ نظر آتا ہے ‘ حقیقت میں اس سے زیادہ الجھا ہوا ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی خلیج کے علاقے میں سب سے بڑی بیس قطر کے علاقے العدید میں قائم ہے۔

یہ قطر کے دارالحکومت دوحہ سے بیس میل جنوب مغرب میں ہے اور وہاں اس وقت بھی امریکہ کے 11000فوجی اور دوسرے حکام موجود ہیں۔ بیس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں 12500فٹ لمبا رن وے بھی ہے اور اس میں 120ایئرکرافٹ کھڑے کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ 2016 میں یہ بیس عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔

یہاں سے اڑان بھرنے والے جنگی طیارے دشمن کے اہداف پر حملے کرتے رہے۔ اس نئی پیدا ہونے والی صورتحال پر پیش کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے قطر کے رویئے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ وہ قطر اور ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو درست سمت میں لانا چاہتا ہے اور کشیدہ صورت حال مستقل طور پر نہیں دیکھا چاہتا اور اس مقصد کے لئے وہ اپنا نمائندہ بھی مشرق وسطیٰ بھیجنے کو تیار ہے۔

امریکہ کا نمائندہ تو جانے کب پہنچے‘ لیکن کویت نے سیاسی بحران کے حل کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے‘ جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سلسلے میں کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح نے کویت میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد الفیصل سے ملاقات کی اور ان سے صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر شہزادہ خالد الفیصل نے امیر کویت کو سعودی فرماں کا پیغام بھی پہنچایا۔

بعد ازاں امیر کویت شیخ صباح نے بحرین کے حکمران شیخ تمیم حماد الثانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے بحرین پر زور دیا کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرے جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے۔
دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹس میں دعوی کیا ہے کہ انہوں نے عرب ملکوں سے کہا تھا کہ دہشت گردی کی مبینہ حمایت پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے جائیں۔

سعودی عرب کے حالیہ دورے میں جن مسلمان سربراہان سے ان کی ملاقات ہوئی، انہوں نے قطر کو دہشت گردوں کی مالی مدد کا ایک ذریعہ قرار دیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا: یہ دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بہتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ ادھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان اسپائسر قطر تنازع پر اپنا الگ ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا عرب ملکوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور قطر کے ساتھ کشیدگی ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی روشنی میں مسئلے کا حل نکالیں گے؛ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ پیغامات بھی سرکاری بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس بحران نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے‘ جن کا جواب اس تنازع کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ جب قطر میں امریکہ کی بیس موجود ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ قطری حکومت دہشت گردوں کی مدد کرتی رہی اور امریکہ اس کا ہاتھ نہ روک سکا؟ پھر قطر میں بیس موجود ہوتے ہوئے امریکہ کے لئے کیسے ممکن ہو گا کہ قطر اور اس سے قطع تعلق کرنے والے ممالک‘ دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر امریکی صدر نے اپنے کسی ٹویٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے عرب ملکوں سے کہا تھا کہ دہشت گردی کی مبینہ حمایت پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے جائیں تو پھر سارے فساد کی جڑ تو وہی ہوا اور اس سلسلے میں ا یران کے تحفظات درست ہیں۔

ایسے میں عرب ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ادراک کرنا چاہئے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ قطر کی کمزوری دراصل ایک دن پوری عرب دنیا کی کمزوری بن جائے گی۔
کوئی تصفیہ ہوتا ہے یا نہیں‘ یہ تو اگلے چند روزمیں واضح ہو جائے گا‘ لیکن مشرق وسطیٰ میں یہ جو نئی دراڑ پڑی ہے اس کے جلد ختم ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پھر اس سوچ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ قطر کی مخالفت کرنے والے ممالک نے بات چیت کے ذریعے قطر کو رام کرنے کی تمام تر کوششیں کر لی تھیں جو انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوتی؟ بہرحال یہ مسئلہ اگر جلد حل نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل چھانے اور گولہ و بارود کی بارش ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :