
مون سون
ہفتہ 29 جولائی 2017

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
لوگوں کا خیال یا تجزیہ یا مشاہدہ یہ تھا کہ اگر جمعرات کے روز بارش ہو تو وہ اگلی جمعرات کو ہی رکتی ہے؛ چنانچہ پُرانے وقتوں میں جمعرات کو بارش شروع ہوتی تو لوگ ہفتے بھر کا پروگرام بنا لیا کرتے تھے۔
آم کی محفلیں سجائی جاتیں ۔ گھروں میں طرح طرح کے پکوان پکتے۔ باغوں اور پارکوں کی سیر کے پروگرام مرتب کئے جاتے۔ گھروں میں مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا‘ جو دل آویز موسم کا مز ا لینے کے لئے دوسرے رشتے داروں کے ہاں جمع ہوتے تھے یا دوسروں کو اپنے گھر مدعو کرتے تھے۔ مون سون شروع ہوتا تو برساتی ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی تھی۔ دیہات کے مضافات بارش کے پانی سے بھر جاتے اور ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا۔ حتیٰ کہ شاعروں کے دل بھی مچل جاتے جس کے نتیجے میں اردو ادب کی شاہکار نظمیں‘ غزلیں اور افسانے تخلیق ہوتے تھے۔ اور باغوں میں جھولے پڑتے اور محبوب کی محبوباؤں سے ملاقاتوں کا بربند کیا جاتا‘ چوری چھپے یا سرعام۔ استاد بڑے غلام علی خان کا گایا ہوا یہ ماہیا تو آپ نے ضرور سنا ہو گا:تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
یا پھرامجد اسلام امجد نے کہا تھا:
بارش میں بھگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان سے لمحے بلا کے تھے
گلشن اجاڑ اجاڑ ہیں‘ صحرا ہرے ہرے
پاکستان میں جنگلات کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا چار فیصد سے بھی کم ہے‘ جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا 25فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے۔پوری دنیا میں جنگلات کی شرح کا اندازہ لگایا جائے تو 29فیصد ہے۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے بھی ہم باقی دنیا سے کتنا پیچھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسم ہم سے ناراض ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی زمانے میں دیودار‘ بلیو پائن‘ شیشم‘ کیکر‘ پیپل‘ پھلاہی‘ کاؤ‘ وان‘ کھجری‘ کھیر‘ ببول‘ پاپولر‘ برنا‘ جامن‘ آم کے درخت وافر موجود تھے۔ اب ہر طرف سفیدہ نظر آتا ہے‘ جو پانی کی زیادہ تبخیر کرتا ہے اور لکڑی کے حوالے سے بھی جس کی اہمیت و افادیت مسلمہ نہیں ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں ہر سال دو بار شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے اور ان مہمات کے دوران لاکھوں پودے لگانے کے دعوے بھی اکثر سننے کو ملتے ہیں‘ لیکن جنگلات کے رقبے میں کوئی اضافہ مشاہدے میں نہیں آتا۔الٹا تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ محض پودے لگانا ہی کافی نہیں‘ ایک خاص بلندی تک پہنچنے تک ان کو خاص نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو انہیں نہیں ملتی اور وہ اگلا موسم بہار آنے سے پہلے ہی سوکھ کر نابود ہو جاتے ہیں۔حکومت اگر اپنی شجرکاری مہمات کو محض درخت لگانے تک محدود نہ رکھے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کو بھی ان مہمات کا حصہ بنایا جائے تو ملک میں جنگلات کی کمی کو خاصی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر بدلتے ہوئے موسموں کی بات کی جائے تو یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے لئے جو اقدامات ہو رہے تھے‘ امریکی صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ معاہدہ فرانس سبوتاژ ہو رہا ہے۔ اگر عالمی برادری نے ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تو پھر کلائیمیٹ چینج کے سلسلے کو روکنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ بات سب کو یاد رہنی چاہئے کہ یہ موسم ‘ پودے‘ درخت‘ پرند اور چرند ہیں تو ہم بھی ہیں۔ اگر یہ نہ رہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔آئیے اپنے موسم کو بچائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.