
دل کی دنیا
ہفتہ 19 جنوری 2019

خالد محمود فیصل
مقام حیرت ہے کہ سعودی حکام نے عمرہ کی بار بار سعادت حاصل کرنے پر اپنی کرنسی میں جرمانہ عائد کرکے ان زایئرین کی راہ روکنے کی کاوش کی ہے جو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر درِ حبیب کی جانب جلدا ز جلد قدم اٹھانے کے متمنی ہیں، حلقہ احباب میں ایک صاحب کو اب کی بار بھی عمرہ کی سعادت کا شرف حاصل ہوا فرمانے لگے کہ ہماری قوم نے سعودی حکام کے شاہی فرمان کو خاطر نہ لاکر واضح پیغام دیا ہے کہ جرمانے ہمارے جذبات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے جبکہ امت کے دیگر افراد کی حاضری خانہ خدا میں اس بار کم رہی انہوں نے اضافی معاشی بوجھ کو مذہبی ، فریضہ کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹ قرار دے کر احتجا جا بادشاہ وقت کو پیغام بھیجا کہ حرمین شرفین کی حفاظت کی ذمہ داری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
(جاری ہے)
جبکہ ہماری قوم کے مردو خواتین دیگر کے مقابلے میں کثیر تعداد میں موجود تھے گویا جرمانہ کی صورت میں اضافی بوجھ کی انہوں نے ” ٹینشن “ لینے کی حاجت ہی محسوس نہیں کی۔
امسال بھی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے مسلم ممالک میں سے غالب تعداد کا تعلق ہماری مملکت ہی سے تھا ہمارے ہاں جن افراد کو اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرماتا ہے ان میں سماج کی ایلیٹ کلاس کے علاوہ متوسط طبقہ عمومی طور پر جبکہ تاجر برادری خصوصی طور پر شامل ہوتے ہیں، یار لوگوں نے تو اب ایسی ایسی انعامی سکیمیں بھی متعارف کروادی ہیں کہ ان کے ذریعہ بذریعہ قرعہ اندازی ” عمرہ ٹکٹ “ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے قرعہ اندازی کے ذریعہ عمرہ کا طریقہ کار کہاں تک درست ہے اس کے بارے میں رائے تو کوئی معزز مفتی ہی قائم کرسکتا ہے۔تاہم بہت سی” لاٹری سکیم “کا قرعہ مفتی صاحبان کے دست مبارک سے نکالنے کی روایت ہمارے ہاں اب پختہ ہورہی ہے، امکان ہے کہ اگر اسی رفتار سے قرعہ اندازی کا چلن چلتا رہا جو حج کی سعادت کیلئے بھی ہمیں کسی نہ کسی ” انعامی سکیم “ کا حصہ بننا پڑے گا اسکی اک وجہ بڑھتے ہوئے حج کے اخراجات بھی ہیں۔
ہمارے اک سادہ لوح دوست نے اک سوال ہمارے سامنے داغ دیا کہ آخر وہی کمپنیاں قرعہ اندازی جیسی سکیم کے زریعہ” عمرہ ٹکٹ“ ہی کیوں متعارف کرواتی ہیں جنکی سیل کم ہوجاتی ہے اور پھر اتنے افراد کے اخراجات وہ کیسے اٹھاتی جو پہلے ہی ” مندے “ کا شکار ہوتی ہیں ان کے پالیسی سازوں نے عمرہ ٹکٹ ہی کو کیوں ہتھیار بنا لیا جس کے ذریعہ وہ عوام الناس کو ترغیب دے کر اپنی مصنوعات بیچتے ہیں۔
ہماری دانست میں تو اسکی بڑی وجہ ہماری مذہب اور حرمین شریفین سے جذباتی وابستگی ہے جسکا فائدہ تاجرانہ ذہنیت کے افراد اٹھاتے ہیں اگرچہ ہمارے ہاں انعامی سکیموں سے ٹکٹ پاکر خوش نصیب افراد دن کی روشنی ہی میں خانہ خدا اور درحبیب پہ حاضری کے خواب دیکھنا شروع کردیتے اور نیم سرکاری خرچ پے اس سعادت کو اپنی خوش بختی شمار کرتے ہیں لیکن ان کے طبق اس وقت روشن ہوتے ہیں جب ان کو صرف ٹکٹ تھما دیا جاتا اور باقی اخراجات از خودجیب سے ادا کرنے کی نوید سنائی جاتی ہے یوں عمرہ کے نام پر ’ پہلی’ ڈنڈی مارنے “ کا آغاز یہی سے ہوجاتا ہے۔
قیاس کیا جاتا ہے ہماری آبادی کی غالب تعداد حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرچکی ہے ان میں بطور خاص سیاستدان ، افسر شاہی اور تاجر برادری شامل ہے اس وقت قومی سیاسی منظر نامہ پے جن افراد کے نام ای سی ایل لسٹ میں شامل ہے ان میں سے زیادہ تروہ ہیں جنہیں کم از کم اک بار عمرہ کی سعادت تو ضرور حاصل ہوئی ہے ان کا جرم بہت سادہ سا ہے کہ انہوں نے قومی دولت لو ٹ کر اپنے اثاثے بنائے ہیں بعض تو ایسے بھی ہیں کہ جنہیں زندگی کا کچھ حجاز مقدس پے گذارنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔
اگر ہم تاجر طبقہ کی بات کریں تو یہ بھی الا ماشاء اللہ حج و عمرہ کی سعادت پیسے کے بل بوتے پر بار بار حاصل کرنے کا شرف پاچکے ہیں بعض کے بارے میں تو اطلاعات یہ ہیں کہ وہ ہر جمعہ خانہ خدا میں ادا کرتے اور پھر شام کی فلیٹ سے کراچی اتر جاتے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں وہ ” نیک لوگ “ بھی شامل ہیں جنہیں ٹیکس چوری کرنے پر پورا ملکہ حاصل ہے، بعض کے بارے میں شنید ہے کہ وہ ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تیسرے قماش کے وہ لوگ ا ہیں جو ناجائز منافع خوری کو” عین ثواب“ خیال کرتے ہیں اس ضمن میں اک لطیفہ قارئین کی دلچسپی کیلئے حاضر خدمت ہے۔
کپڑے کے تاجر کے چار بیٹے تھے سب سے چھوٹے کے علاوہ سب نے حج کی سعادت حاصل کررکھی تھی اک دوست نے انہیں کچھ رقم ضرورت پڑنے پے دی کافی عرصہ کے بعد وہ واپسی کا تقاضا کرنے دکان پے آئے کپڑے کے یہ تاجرالمعروف حاجی صاحب صاف مکر گئے انہوں نے کچھ رقم لی تھی ان کے دوست نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت آپ کے چاروں بیٹے دوکان پے موجود تھے، حاجی صاحب نے تینوں بڑے بیٹوں سے پوچھا سب نے کہا کہ ہمارے سامنے تو رقم دینے کا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا ،حاجی صاحب نے دوست سے مخاطب ہوکر کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ان کے دوست اس رویہ سے مایوس ہوئے، چھوٹا بیٹا جو گفتگو سن رہا تھا فورا بولا ابو جی میرے سامنے انہوں نے آپکو نے رقم دی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے ،حاجی صاحب نے بڑے بیٹے سے کہا دوست کو رقم واپس کر دو اور چھوٹے بیٹے کو عمرہ پے روانہ کردو۔
اب تلک ہمارا رویہ اپنے دین سے رسم و رواج تک ہی محدود رہا ہے ہم نے اسکو نظام زندگی کے طور پر لیا ہی نہیں نہ ہی ہمارے ارباب اختیار کی کوئی ایسی خواہش رہی۔ کاش! ہماری سامنے اسکا کوئی نمونہ ہی موجود ہو،ہماری زندگی میں حج و عمرہ کی سعادت بھی کوئی انقلابی تبدیلی لانے میں ناکام اس لیئے رہتی ہے کہ اب یہ اک رسم اور سٹیس سمبل کا رتبہ پا چکا ہے اور ہم نے باہمی معاملات کے لیئے دین اور دنیا کے الگ الگ ترازو بنا رکھے ہیں۔
اس وقت شاید ہی کوئی محلہ، علاقہ ، بازار ، گلی ،دیہات ہوجس میں کوئی حاجی ، موجود نہ ہو زیادہ امکان یہ ہے کہ الحاج کی قابل ذکر تعداد ان مقامات پر ہوگی کیا انہیں دنیا کے ان بہترین انسانوں میں شامل کیا جاسکتا ہے جو اسوہ حسنہ پے پورے اترتے ہیں؟جن کے معاملات صاف اور شفاف ہوں جنکی گواہی پے آنکھیں بند کرکے اعتبا ر کیا جاتا ہو جو کسی بھی شعبہ زندگی میں فرائض منصبی انجام دے رہے ہوں تو ہم سب کیلئے قابل تقلید ہوں ، خانہ خدا اور درِ حبیب کی زیارت کے بعد بھی اگر دل کی دنیا تبدیل نہیں ہوتی۔ معاملات زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آتا، عزیز و اقرباء کے ساتھ رویوں میں فرق نہیں پڑتاتو یہ طرز عمل خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے کہ کہیں خدانخواستہ ہماری یہ عبادت محض جسمانی مشقت تو نہیں؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.