اردلی

اتوار 2 جون 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

قرآن حکیم میں انسانی تاریخ کے وہ انمٹ نقوش ہیں جس میں ان اقوام کا تذکرہ بھی ہے جنہیں عروج حاصل رہا وہ بھی اسکا حصہ میں ،ذلت اور رسوائی جن کا مقدر ٹھہری ، ذہنی پستی اور غلامی کو اپنا اوڑھنا بچھو نا والے گروہوں کا احوال بھی اس میں رقم ہے ۔ فی زمانہ انسانیت اپنی فلاح کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی خواہاں ہو تو اس کے اوراق کھلی کتا ب کی مانند ہیں جسے سائنس اور ٹیکنا لوجی سے دلچسپی ہو اسکی را حت کاسامان بھی اس میں موجود ہے غرض یہ کہ خاندانی،عائلی معاملات سے لے کر قانونی ضابطوں تک اور حد اور تعزیر سے لے کر جنگی حربوں سب کچھ اس دریا میں کوزے کی طرح بند ہیں ۔

دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز بھی اس میں پنہاں ہے ۔ جتنی عقیدت ، احترا م ،کھلے دل اورآنکھوں سے آپ محو مطالعہ ہوں گے دنیا کے سارے راز ازخود آپ پے آ شکار ہوتے چلے جائیں گے ۔

(جاری ہے)


 سورة اعراف میں اس بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے جو فرعون کے زیر عتاب تھی جس کی بیگاراور مشقت نے فرعون کی ریاست کو گل گلزار بنا کے رکھا تھا ،ذہنی پستی اور غلامی کی زندگی گزارنے والی یہ قوم اسکی پو جا تک کرنے پر مجبور تھی ۔

حضرت موسیٰ  اس قوم کے نجات دہندہ بن کر آئے اور انہیں مشقتوں سے دورلے گئے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے اسکا پیچھا کیا مگر حکم خداوندی سے سمندر میں غرق ہو گئے کو ہ سینا پے طے شدہ اللہ سے ملاقات کے بعد جب موسیٰ لوٹے تو یہ قوم تو حید پرستی کی بجائے بچھڑے کومعبود بنا چکی تھی تورات اور انجیل اس فعل کی ذمہ داری حضرت ہارون پر ڈالتے رہے لیکن قرآن نے انہیں بری الذمہ قراردے کر سامری جادوگر کو مورد الزام ٹھہرایا۔

بچھڑے کی پوجا کا عملی مظاہرہ نبی کی موجودگی میں اس قوم کے غلام ہونے کا پوراپورا ثبوت تھا حالانکہ انبیا ء کی بعثت کا اولین فریضہ ہی بندوں کرانسا نون کی غلامی سے نکا ل کر اللہ کی بندگی میں دینا ہو تا ہے تاکہ آزاد قوم عزت اور وقار کے منصب پر فائز ہو سکے ۔ قرآن کے اوراق غلام اقوام کی حرکات سے بھرے ہوئے ہیں ،آج بھی آزاد اور غلام اقوام کے چلن میں واضع فر ق دکھا ئی دیتا ہے ۔


تاج برطانیہ جسے آدھی دنیا پے حکومت کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے اس نے کئی اقوام کو غلام بنا ئے رکھاسیاست کی زبان میں یہ ریاستیںates Colonial Stکہلاتی ہیں ۔ دولت مشترکہ کی ان ریاستوں میں آج بھی انکی باقیات موجود ہیں، اسکی جھلک ، قانون ، نظام تعلیم ، عدل و انصاف اور رہن سہن میں نمایاں ہے۔
 بعض باقیات کا تعلق ہماری اقدار روایا ت سے ہے جو ہمارے سماج میں آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ رائج العمل ہیں جن سے ذہنی غلامی کی بو آتی ہے۔

ذیل میں ان میں سے دو کا تذکرہ قارئین کی دلچسپی کے لیے کیاجاتا ہے جن میں ہماری تضحیک کا پہلو بڑا نمایاں ہے۔آپ ذاتی حیثیت یا اہل خانہ کے ساتھ کسی مصروف ہوٹل کا رخ کریں تو آپکو مر کزی دورازہ پر اک دربان کھڑا ملتا ہے ان میں سے بعض پست قدہوتے ہیں ۔ پگڑی اور کلاء ان کے لباس کا حصہ ہوتا ہے ۔پگڑی ہمارے دیہاتی کلچر میں عزت ، وقار ، محبت اور دوستی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔

بعض قبائل میں پگڑی کی طرز پے دستا ر بند ی کی جاتی ہے جو خاندان کے بزرگ کے سرپے رکھی جاتی ہے ۔لیکن سامراج نے اسے دربان کے لباس کا حصہ بنا کر ہمارے اس کلچر کی تو ہین کی اس کے مد مقابل ہوٹل کے منیجر اور عملہ کے مغربی لباس کے ذر یعہ اپنی برتری کا احسا س دلایا ہے اک طرف سامراج نے جاگیرداروں ، نوابوں ، سرداروں کو سرکاری اراضی دے کر انہیں معاشی طور پر ممتاز مقام دلایا ہے تو دوسری طرف انکی پگڑی اور کلاء کو تضحیک کی علامت بنا دیا ہے ۔


دوسری قدر کا تعلق ہمارے انتظامی اور عدالتی شعبہ سے ہے اگرچہ انگلش قانون اصل ہی میں ہمارے عدالتی نظام کی روح ہے سامراج کی اس باقیات کو تو ہم دل وجان سے قبول کر رہے ہیں دوسری طرف ججز صاحبان کے گاؤن اور جو ان کے لباس کا حصہ ہیں یہ بھی سامراجی روایات سے مستعار لیے گئے ہیں ججزصاحبان کودوران ڈیوٹی زیب تن کر نا ہو تا ہی"می لارڈ "کہنے سے یہ قدر اور بھی پختہ ہو جاتی ہے اور محسوس یہی ہو تا ہے کہ لارڈ صاحب اسی کرسی منصف پے براجمان ہیں جبکہ سائل کو آواز لگانے والا اہلکار” ڈریس کو ڈ “کے اعتبار سے شیروانی کے ساتھ ساتھ جو جناح کیپ سر پہ رکھے ہوئے ہوتا ہے اسکا تعلق ہمار قومی غیر ت سے ہے ،نام کے اعتبار سے یہ اس باکر دار شخصیت سے منسوب ہے جس نے اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت کے بل بو تے پر انگریز بہادر کے ناک میں دم کیے رکھا اسکی کیپ کو اہلکار کے لباس کا حصہ بنا کر اس بڑی ہستی کی ناقدری کی جا رہی ہے۔

جسکو دیکھ کر سامراجی عہدکے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا ء الحق مرحوم کے عہد میں "می لارڈ "جیسے الفاظ سے منصیفین کو مخاطب کر نا اور جھک کر سلا م کر نے کا عمل کو غیر اخلاقی اور اسلامی قرار دیا گیا تھا ،فی زمانہ یہ سامراجی روایت پھر سے زندہ کی گئی ہے ۔
بڑے” بابووں“ کے دفتری نظام جسے آپ افسر شاہی کا سیکرٹریٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔

وہاں بھی آپ کو کلاس فور کے ایسے ملازمین ملیں گے جن پر لازم ہے کہ وہ "صاحب "کی دفتر موجودگی میں جناح کیپ لازماً زیب تن کر یں نجانے کون ان دونوں میں سے جناح کیپ جیسی قومی علامت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہو گا تاہم اسکی تضحیک ہماری بے حسی کا ماتم کر رہی ہے ۔ہم اپنی اپنی عزت افزائی کیلئے قانون سازی کر وانے کیلئے تو آخری درجہ تک جاتے ہیں لیکن سامراجی باقیات جو ہماری اقدار، روایات کے ساتھ یہ کھلا مذاق ہی نہیں بلکہ اس سے تذلیل انسانیت بھی نمایاں ہے جو آزادی 72 سال کے بعد بھی اپنی شان کے ساتھ موجود ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ” کپتان جی“ قانون سازی میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں ہم توقع رکھتے ہیں کہ کم از کم سامراجی باقیات کے خاتمے کے بابت ہمیں "تبدیلی"ضرور دکھائی دے گی جو ہمارے مسلم سما ج کی پیشانی پر سیاہ دھبہ ہے ۔
ہمارا تعلق جس نبی مہربان سے ہے جنکی ہم امت ہیں انہوں نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے کے ذریعہ ان تما م ذہنی غلامی اور جہالت کی روایات کو اپنے پاؤں تلے دے کر امت کو وقار،متانت کے ساتھ جینے اور مر نے کا واضح پیغام دیا تھا ۔
قرآن حکیم اور نبی مہر بان کی تعلیمات اور پیغام حریت کی موجودگی میں ہم اسکے ترجمان اور دربان بننے کی بجائے سامراج کی باقیات کے ” اردلی “بننے کو ضروری سمجھ رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :