
ووٹ کی حرمت
اتوار 27 ستمبر 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
جس روز اس شہر میں 260 افرادکو زندہ جلا دیاگیاکسی آنکھ میں ندامت کے آنسو نہ تھے وہی روائتی بیانات،مذمتی قرار دایں تھیں،یہ انکی پہلی واردات نہ تھی ،پرچی تھما کر رقم وصول کرنے کا کلچر قانون کا درجہ پا چکا تھا،اس بھتہ سے کئی لوگوں کے گھر کے چولہے جلتے تھے، مگر اپنے مفاد کے لئے اس سانحہ سے وہ کئی گھروں کے چولہے بجھا چکے تھے کچھ اس رقم پر عیاشی کی زندگی بیرون ملک بسر کر رہے تھے،دولت کے بل بوتے پر فیکٹری مالکان بیرون ملک سدھار چکے تھے،غریب مزدور آہوں اور سسکیوں میں دفن کر دئے گئے تھے،کوئی انکا پرساں حال نہ تھا،معمول کی تفتیش کا عمل جاری تھا،سوشل میڈیا پر اس سانحہ کے خلاف بھر پور رد عمل تھا،مگر اس قماش کے لوگ ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کے فریب میں مبتلا تھے، ان کے حو صلے اس لئے بھی بلند تھے کہ شہر اقتدار ان کا اتحادی تھا،ہر سرکاری دفتر میں انکا طوطی بولتا تھا،جس سے بھی بغاوت کی بو آتی ، بوری بند لاش اس کا مقدر ہوتی ۔
ایسے ماحول میں اپنے بیٹے کا غم لئے ایک خاتون آگے بڑھتی ہے،وہ دوسروں کے دکھ کو اپنا درد بنا لیتی ہے،وکلاء سے ملاقات کرتی ہے،ٹریڈ یونین سے انصاف کے حصول میں تعاون چاہتی ہے، وہ چاہتی تو اپنے بیٹے کی موت کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو جاتی، باقی زندگی تنہائی میں گذار کر اللہ کے حضور مقدمہ لے کر پیش ہو جاتی لیکن اس نے ظالم کے خلاف علم بلند کر کے ان طاقتور سیاسی قوتوں اور اداروں کے منہ پر طمانچہ مارا جو ہزاروں میل دور بیٹھے ایک مجرم سے خوف کھاتے تھے ، موصوفہ نے مقامی عدالتوں میں بھتہ مافیا کے خلاف مقدمات درج کروائے، پنشن،سوشل سیکورٹی، ڈیتھ گرانٹ کے لئے کاوش کی،بیرون ملک کا رخت سفر باندھا،نیپال میں انسانی حقوق کی کانفرنس میں شرکت کی،پچاس سے زائد ممالک کی تنظیموں نے ان کے موقف کی حمایت کی،صحافی برادری، اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس بہادر خاتون سعیدہ بی بی کو سپورٹ کیا۔
سرکار کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کا نتیجہ عدالتی فیصلہ کی صورت میں برآمد ہوا ہے،صرف دوافراد کو کئی بار سزائے موت،کچھ کو عمر قید اور چارکی بریت سے اندازہ ہوتا ہے ان صاحب ثروت بااثر افراد نے اپنے اثرورسوخ سے دوران تفتیش اپنی رہائی کا ساماں پیدا کر لیا تھا،موصوفہ نے ایک بیان میں کہا ہے وہ بھاری بھر رقم جس کا تذکرہ جے آئی ٹی میں تھا، عدالتی فیصلہ میں دکھائی نہیں دیا ہے،سعیدہ بی بی نے اس جدو جہد کے لئے نہ صرف گھر بار چھوڑا بلکہ بہت دباؤ بھی برداشت کیا،وہ لوگ جو عدالتی فیصلہ میں کسی وجہ سے بچ گئے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جن کے ایک اشارہ پر پورا شہر بند ہو جایا کرتا تھا آج وہ بات کرنے کو ترستے ہیں،صنف نازک کی ایک کمزور آواز متاثرین کے حق میں توانا ثابت ہوئی ہے، عورت کی طرح ظلم کے خلاف اگر مرد صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے تو بلدیہ فیکٹری میں انسانوں کو زندہ جلانے کی کوئی جرات نہ کرتا، لسانیت کے حقوق کے نام پر جس طرح ووٹ کی حرمت کو پامال کیا گیا ہے،اسکی کوئی مثال پوری ریاست میں نہیں ملتی،طاقتور وہ ہے جو مظلومین کے حمایت میں آواز اٹھاتا ہے ظلم روا رکھنے اور بھتہ لینے سے کوئی طاقت ور نہیں ہوجاتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.