جامعات آپکی دہلیز پر

پیر 7 دسمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ا ک زمانہ تھا جب تیسری دنیا میں بیرون ملک حصول تعلیم صرف اشرافیہ ہی کا مقدر ہوا کرتا تھا،عام طلباء ایسے افراد کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے، سماج میں بھی اعلیٰ مقام انھیں ہی ملتا تھا،اپنی ڈگری کے ساتھ اپنی جامعہ کا نام لکھنا بڑے تفاخر کی بات تھی، جب ذرائع نقل وحمل زیادہ تیز رفتار نہ تھے یہ جان جوکھوں کا کام تھا ،اس دور میں ولایت جو آج کا برطانیہ ہے جاکر تعلیم حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی، سماج جہاں ایک طرف مالی وسائل کے اعتبار سے منقسم تھا وہاں غیر ملکی تعلیم بھی اس طبقاتی نظام میں ایک الگ پہچان تھی۔


اس خطہ میں دینی تعلیم ہی پر عمومی اکتفاء کیا جاتا تھا جو قریباً ہر ایک کی دسترس میں تھی،بچیوں کے لئے قرآن پڑھنے ہی کو کافی سمجھا جاتا تھا، کہا جاتا ہے کہ جب تاج برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا تواپنی تمام تر توجہ صرف معاشی سرگرمیوں تک محدود رکھی،اس عہد میں چند ایک تعلیمی ادارے جو بنگال، کلکتہ، مدراس اور پنجاب میں قائم تھے ان میں زیادہ تر مشنری تھے کچھ مسلمانوں کے ٹرسٹ کے زیر اہتمام تعلیم دینے میں مصروف تھے بعض ہندو سرمایہ داروں نے بنا رکھے تھے ،اپنی آمد کے سو سال بعد لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے نفاذ کے لئے تاج برطانیہ نے ایک تعلیمی کمیشن بنایاتھا،جس نے پنجاب میں بڑی جامعہ کی بنیاد رکھی،پھر باضابطہ تعلیمی نصاب اور نظام مرتب کیا گیا۔

(جاری ہے)


فی زمانہ تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو عام فرد بھی محسوس کر رہا ہے،حتیٰ کہ افغان عوام کی ترجیح بھی بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا ہے باوجود اس کے کسی اچھی عالمی جامعہ میں جدید علم حاصل کرنا آج بھی ہر کسی کا مقدر نہیں ،کہیں اخراجات آڑے آ جاتے ہیں تو کہیں سفری پریشانی رکاوٹ بن جاتی ہے،کہیں تعلیمی ریکارڈ داخلہ کے حصول میں حائل ہو جاتا ہے،لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وظائف کی فراہمی، این جی اوز کی مالی معاونت کے باوجود تعلیم کے بھاری بھر اخراجات ،بچوں اور بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے، ناخواندہ دنیا اور عالمی راہنماوں کی پریشانی اپنی جگہ ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک کو بھوک اور افلاس سے فرصت ملے گی تو وہ تعلیم پر توجہ دیں گے،تمام تر مطالبات کے باوجود تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ اب تو ایک خواب ہی دکھائی دیتا ہے۔


 پرائیوٹ سیکٹر نے تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عوامی اور تعلیمی خدمت کے نام پر اس میدان میں قدم تو رکھا مگر بتدریج یہ جذبہ ماند پڑتا گیا اور مادیت ایسی غالب آئی کہ اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر گئی،یہ صورت حال دیگر ممالک میں بھی ہے مگر اس شدت کی نہیں ۔ البتہ وہاں طلباء کو یہ آسانی ضرور ہے کہ اپنا تعلیمی بوجھ اٹھانے کے لئے انھیں جزوقتی روزگار کے مواقع بہر حال میسر ہیں،تیسری دینا کا طالب اس اعتبار سے بدقسمت واقع ہوا ہے کہ اس کو تعلیمی اخراجات کے لئے اپنے والدین پر ہی بوجھ بننا
 ہوتا یا مخیر حضرات کی جانب دیکھنا پڑتا ہے،وہ جو آئین میں بلا امتیاز مفت تعلیم دینے کا تذکرہ ہے وہ محض کتابی ہے، ورنہ لاکھوں
 بچے مدارس سے کبھی باہر نہ ہوتے۔


مادہ پرستی کے باوجود آج بھی تعلیمی دنیا میں کچھ خدا ترس مگر غیر مسلم ضرور موجود ہیں جنہوں نے ان طلباء اور طالبات کے خوابوں کی تعبیر کا ساماں ،ہائی رینکنگ کی جامعات میں ویب سائٹ تک رسائی کے ذریعہ مختلف کورسز میں د اخلہ ممکن بنا دیا ہے،اس ضمن میں برطانیہ میں مقیم برادر عزیز محمد عامر اصغر نے کچھ معلومات شیئر کی ہے اور وڈیو بھی روانہ کی جو قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگی۔

جس کا تذکرہ ذیل میں ہے۔
انکے مطابق عالمی معیار کی جامعات نے اس گلوبل ویلیج میں دنیا کے تمام طلباء کو ایک ویب سائٹ کے ذریعہ جدید علوم کے ذرائع کو انکی دیلیز تک پہنچا کر بڑی خدمت انجام دی ہے اور موقف اختیار کیا ہے،کہ ہر وقت تعلیم کے نام پر پیسہ کمانا لازم نہیں، اس وقت انٹرنیٹ کے ساتھ یوں تو بہت سی ویب سائٹس اور یو ٹیوب بھی تعلیمی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کی وساطت سے نہ صرف ٹریینگ اور دیگر علوم کا حاصل کرنا ممکن ہوا ہے بلکہ بڑی بڑی لائبریری تک رسائی بھی ہوئی ہے ۔

اس سب کے باوجود دنیا کی نامور جامعات نے اجتماعی طور پر ایک ویب سائٹ کے لنک کے ساتھ طلباء و طالبات کو انکی فنگر ٹپ سے علم تک رسائی دینے کے لئے ایک نئی ویب سائٹ متعارف کروائی ہے، جو ہاورڈ، ٹیکساس، برکلے، کلمبویا اور ہانگ کانگ یونیورسٹی کی مشترکہ کاوش ہے اس کے ذریعہ سے طلباء وطالبات انجینئرنگ، کامرس، بزنس منیجمنٹ، لینگویج،سوشل سائنسز، کمپیوٹر کے شعبہ جات میں رجسٹرڈ ہو کر بہترین مگر جدید علم حاصل کرتے ہوئے اپنی قابلیت، اور سکل کو باآسانی بڑھا سکتے ہیں اس سائٹ کی وساطت سے مفت کورسز بھی کیے جاسکتے ہیں اور مطلوبہ فیس کی ادائیگی کے بعد مذکورہ جامعات کا سرٹیفکیٹ بھی مل سکتا ہے، ایسے نوجوان جو مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں وہ باضابطہ داخلہ لے کر کورس یا ڈگری کرنے سے قاصر ہیں اور غیر ملکی جامعہ سے سرٹیفکیٹ کا حصول انکی جاب کی ڈیمانڈ ہے، وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں،یہ ویب سائٹwww.edx.org ہے اس کے ہوم پیج پر کورسز کی تفصیل ،اساتذہ کے اسماء گرامی، فیس شیڈول بھی ہے اسکو وزٹ کرنے سے متعلقہ معلومات باآسانی میسر آسکتی ہیں، وہ طلباء جو صرف اپنی تعلیمی اور عملی استعداد بڑھانا چاہتے ہیں وہ بھی اپنی پسند کی جامعہ میں رجسٹرڈ ہو اور علمی پیاس بجھا سکتے ہیں،اگر انھیں سرٹیفکیٹ درکار نہیں تو فیس کا ادا کرنا ا نکے لئے لازم نہیں،ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے عہد جدید کے جدید علوم اب ہر کسی کا مقدر ہو سکتے ہیں اگر وہ دلچسپی رکھتے ہوں،جامعات کی انتظامیہ کا یہ قابل تحسین عمل اس فنانشل گیپ کو فل کرنا ہے جو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ عوام کے درمیان حائل ہے،اس کار خیر میں ہماری جامعات کے لئے بھی سبق ہے جو اس وقت محض کماؤ پتر بن کر ہی رہ گئی ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :