ملاء کی اذَاں

بدھ 28 جولائی 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اسلام کو جو دیگر مذاہب میں ممتاز مقام حاصل ہے وہ اِسکا اجتماعی رویہ ہے،اس کی عبادات خواہ مالی ہوں یا بدنی ،دونوں کا خاص وصف یہ ہے کہ اِسکی وساطت سے اصلاح معاشرہ ہی کا فریضہ انجام دینا نیز سماج کے پسماندہ طبقات کی مالی معاونت کرنا بھی مقصود ہوتا ہے ،اِن سر گرمیوں میں سب بڑی اور مشقت انگیز،رُوح پرور عبادت حج کی ادائیگی ہے۔

ہر دل میں یہ خواہش موجزن ہوتی ہے کہ وہ اگر دیار غیر کا رخت سفر باندھے تو اس کا پہلا سفر حجاز مقدس ہی کا ہو،اِسکی فرضیت اگرچہ مشروط ہے تاہم یہ ایک ایسی مذہبی، سماجی،معاشی عالمی سرگرمی ہے جو سب کی توجہ کا مرکز قرار پاتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی اہل عرب بھی حج کا فریضہ انجام دیتے تھے لیکن وہ خرافات سے لبریز ہو ا کرتا تھا،اللہ تعالیٰ نے اس کو خالصتاً اپنی عبادت کے لئے مختص کر کے کعبہ کو ان تمام بتوں سے پاک کرنے کا حکم صادر فرمایا،جن کی پوجا اِنکے معتقد ین کرتے تھے،علاوہ ازیں اس عبادت کے ذریعہ وہ تمام حسب اور نسب بھی ختم کر دئے جن پر وہ تفاخر کیا کرتے تھے، روایت ہے کہ بہت سے غیر مسلم ایک ہی لباس میں حجاج کرام کو دیکھ کر ایمان لے آئے کہ مساوات کا اس سے بہتر دنیا میں اور کوئی نظام نہیں۔

(جاری ہے)


نبی آخر الزمان نے اپنی حیات مبارکہ میں پہلا اور آخری حج کیا اس موقع پرآپ نے خطبہ حج دیا ،جو تاریخ انسانی میں ایک کلیدی مقام رکھتا ہے،اسلام میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے،انسانی حقوق کا یہ اولین اور مثالی منشور ہے،جس میں کسی گروہ کی حمایت،کوئی نسلی، لسانی قومی مفاد،کسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا، جب آپ نے میدان عرفات میں یہ خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا کہ ہم اِسکی حمد کرتے ہیں، اِس سے مدد چاہتے ہیں،اِس سے معافی مانگتے ہیں اِس کے پاس توبہ کرتے ہیں،ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرے پاوں کے نیچے ہیں،عربی کو عجمی،سرخ کو سفید پر کوئی فوقیت حاصل نہیں،مگر تقویٰ کے سبب سے، آپ نے خواتین اور غلاموں کے حقوق بھی بتلائے، معاشی پالیسی بیان کی، تعزیر کے پیمانے طے کئے،امن کو برقرار رکھنے کے راہنماء اصول دئے ،رواثت کے قوانین کا تذکرہ کیا، سیاسی ، ریاستی خارجہ پالیسی بیان کی،گمراہی سے بچنے کے لئے صرف کتاب اللہ اور سنت سے راہنمائی لینے کے تاکید کی تھی۔

یہ خطبہ بعد ازاں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر قرار پایا۔
اُس وقت سے آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے کہ امام کعبہ مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہیں، عالمی سطح پر ایک عالم گیر اجتماع ہوتا ہے، جس میں دنیا بھر سے مسلمان شریک ہوتے ہیں، نبی آخرزماں کا خطبہ حج ایک لائن آف ایکشن دیتا ہے اس سنت کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر امام کعبہ کا خطبہ حالات حاضرہ پر ایک شاندار تبصرہ ہوتا ہے، تاکہ عالمی حالات کے تناظر میں اُمت کی راہنمائی کی جائے مظلوم اور بے کس افراد کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی جائے،ظالم کو للکارا جائے،امت کو عزت اور وقار کے ساتھ رہنے کا درس دیا جائے،معاشی، سیاسی ،سماجی پالیسیوں پرگائیڈ لائن دی جائے،نئی جدت، اور زمانے کے ساتھ آنے والی برائیوں سے بچنے کے لئے انھیں آگاہی دی جائے،امت سے متعلق سیاسی ،سرحدی ایشوز پر اظہار خیال کیا جائے،حرمین شریفین کے مقامات کے تقدس پر راہنمائی دی جائے اگر ان جگہوں پر کوئی غیر شرعی معاملات دیکھے جائیں تو حاکم وقت کی باز پرس کی جائے۔

بدلتے ہوئے حالات کے مطابق کون سا سامان حرب لازم ہے اسکی نصیحت کرنا، جدید علوم پر دسترس حاصل کر نے کی ہدایت کرنا،عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو بنانا امام کعبہ کے فرائض منصبی میں شامل ہے، کیونکہ جو ممتاز مقام اُمت مسلمہ میں انھیں ملتا ہے وہ کسی دوسرے کا خاصہ ہو ہی نہیں سکتا ، سال کے بعد اُمت کا یہ عالمی اجتماع بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔


ماضی میں امام کعبہ انھیں معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے خطبہ دیا کرتے تھے، اِن کے خطاب میں تذکرہ جہاد بھی ہوتا تھا، امت کو درپیش مسائل بھی انکی تقریر کا عنوان ہوا کرتے تھے، یہ اسلام کی آفاقی خوبیوں کو بیان کر نے علاو ہ اُن ناانصافیوں کا بھی تذکرہ کرتے تھے جو بڑی طاقتوں کی جانب سے روا رکھی جاتی ہیں اِنکی گفتگو کشمیر، فلسطین اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے ذکر کے بغیر ُاُدھوری سمجھی جاتی تھی،اِن کی بات میں رُعب، دَبدبہ، متانت ہوتی تھی۔


اب کی بار بھی یہ خطبہ مسجد نمرہ میں پڑھا گیا، امام محترم نے بنی مہربان کی سنت کو ہی زندہ کیا، لیکن ان کے کلمات میں وہ رعب، دبدبہ،وژن نظر نہ آیا، ان کا خطبہ جہاد کے تذکرہ سے بھی خالی تھا، ان کے فرمودات میں بیت المقدس کی زبوں حالی کا ذکر ہوانہ محکوم فلسطین کی ڈھارس بندھائی نہ ہی کشمیری مسلمانوں کو پابند سلاسل کرنے کی مذمت کی،عرب ممالک میں چند ہاتھوں میں دولت کے مرتکز پر بھی اظہار خیال نہ کیا، شہزادوں کی عیاشیاں زیر باعث نہ لانا بھی دال میں کچھ کالا بتاتا ہے۔

امام کعبہ کا اس موقع پرخطبہ حج امت کے لئے پالیسی بیان سمجھا جاتا ہے جو اُمت کے ُروحانی قائد کے طور پر پوری دنیا میں سنا جاتا ہے، اس بار امام کعبہ نے اِن موضوعات پر لب کشائی کی ہے جن کا تعلق محض اخلاقی اقدار سے ہے،اس سے وہ گفتار کے غازی ہی ثابت ہوئے ہیں،لگتا ہے کہ انھوں نے عصا کو توڑ کرکلیمی کار بے بنیاد پر اکتفاء کیا ہے۔
کچھ عرصہ سے خادمین حرمین شریفین کی وہ روشن خیالی عوامی حلقوں میں زیر تنقید ہے، جس کا مظاہرہ سعودی سرزمین پر سنیماکے قیام میوزیکل کنسرٹ کے انعقادکی صورت میں سامنے آرہا ہے،اذان کی آواز کے ساتھ دوکانیں بند ہونے کا کلچر بھی اَب ڈھیلا پڑتا جارہا ہے،یہ تمام اشارے بتاتے ہیں کہ کچھ نادیدہ قوتیں اپنی تہذیب کو بتدریج سعودی سماج میں راسخ کرنا چاہتی ہیں تاکہ حرمین شریفین بھی اِنکے منفی اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔


ِاِس وقت اُمت مسلمہ ایک مخلص، دیانت دار، دور اندیش قیادت سے محروم ہے، حرمین شریفین کی وجہ سے اُمت کا ہر فرد سعودی فرمانروا سے نہ صرف عقیدت ،محبت رکھتا ہے،بلکہ اِنھیں اپنا وارث بھی سمجھتا ہے لیکن اس ملک کے ارباب اختیار کے لچھن بتاتے ہیں کہ وہ کسی اور کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں،شاہ کے احکامات کے نتیجہ میں حالیہ سماجی آزادی سے غیر کی غلامی کی بدبو آرہی ہے۔


مقام حیرت ہے کہ جس ریاست کے بادشاہ سے ا سلامی ممالک کے عوام محض حرمین شریفین کی بدولت محبت رکھتے ہوں ، وہ اپنے اقدامات سے مسلم دنیا کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے ہوں،امام کعبہ کی بے بسی اِنکے خطبہ سے عیاں تھی،نجانے بادشاہ سلامت اِس تاریخی خطبہ کو کیوں غیر موثر بنانے کے خواہاں ہیں،وہ اُمت کے مسائل سے الگ تھلگ ہو کر اپنے احترام میں اضافہ کیسے کروا سکتے ہیں، اِن سے عقیدت اگر ہے تو وہ مقامات مقدسہ کی بدولت ہے،لہذا اِس کا پاس رکھتے ہوئے اِنھیں آئمہ کرام کو اِسی طرز پر خطبہ دینے کی آزادی دینی چاہئے جس فکر کی بنیاد نبی مہربان نے رکھی تھی،امام کعبہ کے حالیہ خطبہ سے یہ واضع پیغام ملا ہے کہ ملوکیت کے طرز حکومت میں مجاہد کی آذاں بھی ملاء کی آذاں بن کر رہ جاتی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :