ای۔ لرننگ۔

منگل 23 اکتوبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اک زمانہ تھا جب ہم تختی، قلم دوات لکھا کر تے تھے۔بدیشی زبان کا دور دور تک کوئی نشان تک نہ تھا۔ ہمارے سکولوں میں چھٹی کلاس سے اس کا آغاز ہوتا تھا۔ہماری غالب افسر شاہی انہیں ٹاٹ سکول کی پیداوار ہوا کرتی اورچند معدودے مضامین ہوا کرتے تھے۔استاتذہ کرام اپنے پیشے سے انتہائی مخلص ہوا کرتے تھے۔ مادیت نے جب سے تعلیمی اداروں میں قدم رکھا ہے ساری اقدار ہی بدل گئی ہیں۔

فی زمانہ طلباء میں نمبروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔اب بچے کو پڑھانا اضافی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے۔بھاری بھر سکول بیگ نے بچوں سے سماجی زندگی ہی چھین لی ہے۔ہوم ورک ،ٹیوشن نے اسے کنویں کا مینڈک بنا دیا ہے۔ محض سکول انتظا میہ ہی نہیں والدین بھی انہیں ” افلاطون“ بنانا چاہتے ہیں۔
ذرہ تاریخ پے نگاہ رکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سامراجی نظام تعلیم میں پیوند کاری کرنے ہی کو ہم نے کافی سمجھا، اپنی تہذیب و ثقافت رکھنے کے باوجود، تحقیق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی، لارڈ میکالے کے دئیے گئے تعلیمی نظام کے نفاذ میں عافیت سمجھی، ہماری سنجید گی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ 1972 ء تک قومی سطح پے کوئی قابل ذکر ادارہ نہ تھا جو نصاب سازی کرتا۔

(جاری ہے)

اسی کا ہی فیض ہے کہ کئی نسلوں سے انٹر اور ڈگری لیول کا ایک ہی انگریزی کورس پڑھایا جا رہا ہے اس کی بدولت ہزاروں طلباء بدیشی زبان میں فیل ہو کر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں مگر اس قومی نقصان پر تحقیق کی خواہش ہی جنم نہیں لے رہی۔ کسی نامور مادر علمی نے بھی اسے موضوع تحقیق ہی نہیں بنایا۔
 1973 کے آئین میں تعلیم کی فراہمی کو اگر بنیادی حق خیال کیا گیا تو 18ترمیم کے بعد آرٹیکل 25 A کے تحت نصاب سازی کی ذمہ داری صوبہ جات کے کاندہوں پے آن پڑی ہے۔

اب ہر صوبہ اپنی مرضی کا نصاب مرتب کرنے کا روادار ہے جس کا فائدہ ہ پرائیوئٹ سکول کا طبقہ اٹھا رہا ہے اس مشق سے قومی یکجہتی کا تصور عنقا ہوتا جا رہا ہے جبکہ حالات یکجہتی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان اداروں میں پیسے کمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔حتی کہ پہلی کلاسز میں ہی کئی کتب بطور نصاب شامل کر دی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دینا میں چھوٹے بچوں کے لیے لرننگ بذریعہ کھیل کو نصاب کا حصہ مانا جاتا ہے۔

مینٹسوری اور کینڈرگارٹن سکول سسٹم کے تحت learning by playing کے طریقہ تدریس کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جاپان میں ابتدائی کلاسز میں صرف ethics کا درس دیا جاتاہے یہی ان کا نصاب ہوتا ہے، شائد اسی لیے جاپانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ مہذب خیال کی جاتی ہے
اگر برطانیہ کے نصاب کا جائزہ لیں تو بنیادی کلاسز میں صرف انگریزی، ریاضی، اور سائنس ہی پڑھائے جاتے ہیں، آپشن کے طور پر دیگر مضامین بھی طلباء کو سکینڈری کلاسز میں آفر کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح امریکہ میں بھی مذکورہ مضامین کے علاوہ تاریخ،آرٹ، قانون پڑھائے جاتے ہیں، جبکہ ہم سوشل سائنسز کے مضا مین کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انٹر کلاسز سے اس نوع کے کورسز کا آغاز ہوتا ہے طلباء صرف امتحانی نقطہ نظر سے اسے پڑھتے ہیں۔ مضمون کا بنیادی علم نہ ہونے سے وہ بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان مضامین کا وہ صرف سطحی علم رکھتے ہیں۔

مقام حیرت ہے کہ ہمارے طلباء یورپ میں انکے تعلیمی نظام کی بدولت قریبا ہر شعبہ زندگی میں پوزیشن لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مقابلے کے امتحان شریک امیدواران کی کم علمیت کا رونا رویا جاتا ہے۔
فی زمانہ رائج نصاب پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہاہے۔ اسی لیے سماج کی ایلیٹ کلاس اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوانے کو ناگزیر خیال کرتی ہے کیونکہ ہر ادارہ کا نصاب اپنا اپنا ہے ۔

یہاں تو ڈگری کے اصلی اور جعلی ہونے کے شک نے ہمارے تعلیمی نظام پے سوال اٹھا دیے ہیں۔
طویل مدت کے باوجود ہم نہ تو تعلیمی زبان پرمتفق ہو سکے نہ ہی یکساں نصاب ہمارا مقدر ٹھرا۔ زبا ن غیر نے ہماری قومی زبان کا بھی حشر کر دیا ہے جس کے لطیفے میڈیا پر بھی دستیاب ہیں اگرچہ اب قومی سطح پر یکساں نصاب کی باز گشت سنائی دے رہی ہے، مگر اس سے پہلے نئی تعلیمی پالیسی کا مرتب ہونا ضروری ہے،دلچسپ امر یہ ہے کہ دیہات کی غالب آبادی کو اس لحاظ سے ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

ماضی میں نصاب سازی میں مضمون کو اہمیت حاصل تھی عصر حاضر میں طلباء اس کا محور خیال کیا جاتا ہے۔لہذا انکی دلچسپی، ضرورت کو ہی کو سامنے رکھ کر سلیبس بنانا ہو گا۔
پنجاب میں ای۔لرننگ کے ماہر ڈاکٹر عمر سیف کی خدمات کا ہمیں اعتراف ہے خدشہ یہ ہے کے دیہات کا طالب علم اب بھی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا جہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں۔

شہروں کے کثیر تعلیمی ادارے بھی جدید طریقہ تدریس کے آلات سے تا حال محروم ہیں
شنید ہے کہ برطانیہ نے ابتدائی کلاس کے طلباء سے ٹیب اس ریسرچ کی بنیاد پر واپس لے کر ا ن کے ہاتھ میں پنسل ،کاپی تھما دی ہے کیونکہ بچوں کی لرننگ کی رفتار سست روی کا شکار تھی
ہم سمجھتے ہیں کہ لرننگ کو موثر بنانے کے لیے سائنس مضامین کے مطابق گیمز بنائی جائیں، طلباء کھیل ہی کھیل میں پڑھ سکیں، ا مریکن سکولز میں اسکا تجربہ کامیاب رہا ہے۔

ہمارے ہاں رٹا سسٹم نے طلبا کوء کتابی کیڑا بنا دیا ہے ان کے نمبر تو آتے ہیں لیکن وہ علم سے محروم ہیں جسکا شکوہ اساتذہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بجا طور پر ای۔لرننگ طلباء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اصل کام طلباء کا نصابی بوجھ کم کرنا اور اس میں جدت لاناہے تاکہ ای۔ لرننگ اور بھی موثر ہو سکے۔۔ اس کے باوجود استاد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :