اک دن کا عشق

اتوار 25 نومبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہر طر ف رنگ برنگے جھنڈے اور جھنڈیوں کا موسم بہار تھاہر عمر کے لوگ جلوس کے ساتھ پرجوش نعرے لگاتے خراماں خراماں چل رہے تھے اک نوجوان سپیکر سے اعلانات کررہا تھا شور اور ہنگامہ اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی جلوس پے گل پاشی کا سلسلہ جا ری تھا کچھ لوگ اپنی سواریوں کے ساتھ شریک تھے وقفہ وقفہ سے نعرے سپیکر سے بلند ہوتے تو حاضرین اک بار پھر تازہ دم ہوجاتے ۔

کچھ مخیر حضرات نے جگہ جگہ پانی کی سبیل کا بھی اہتمام کررکھا تھا۔جو لوگ چلتے چلتے تھک جاتے وہ کچھ دیر کے دم لیتے پھر شریک سفر ہوجاتے اس میں شامل اک بڑی تعداد ان نوجوانان کی تھی جو موٹر سائیکل پر سوار تھے لیکن انکی شمولیت راہ گیروں کے لیے اذیت بن رہی تھی موقع محل سے قطع نظر بعض نے سلنسربھی نکال رکھے تھے یوں شور سے ماحول آلودہ ہورہا تھا بھوک سے نڈھال زیادہ تر افراد اس امید پے جسم کو سہارا دے کر چل رہے تھے کو جلوس کے اختتام پر لنگر کا بھی اہتمام ہے اب مساجد سے اذان کی آوا ز بلند ہونے لگی تھی حاضرین میں سے بعض نے خاموشی اختیار کی کچھ محو گفتگو رہے۔

(جاری ہے)

دیگر نے مائیک تھامے نوجوان کی توجہ اذان کی جانب مبذول کروائی چند لمحے کے سکوت کے بعد حاضرین پھر سے چاک و چوبند ہوکر نعرہ بازی میں مشغول ہوگئے ۔افراد کے ساتھ ساتھ اونٹ گھوڑا، خچرجیسے جانور بھی اس سرگرمی کا حصہ تھے۔ کچھ نوجوانان نے عربی لباس بھی زیب تن کررکھا تھاان کے ہاتھ میں تلوار بھی تھی اذان کی آواز جلوس پر گہرہ اثر تو نہ چھوڑ سکی تاہم چند بزرگوں نے مسجد کا رخ کرہی لیا۔


انسانوں کا جم غفیر اس ٹرالی کے پیچھے رواں تھا جس پر عرب ثقافت کے کچھ نمونے رکھے ہوئے تھے بعض ناسمجھ لوگ عقیدت سے انہیں ہاتھ لگا تے کچھ تو چومنے کی بھی جسارت کرتے اس سرگرمی کا نتیجہ دھینگا مشتی میں نکلتا کچھ باریش افراد کئی بار آگے بڑھ کر صلح جوئی کا درس دیتے اور بیچ بچاؤ کراتے لیکن عقیدت تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتی۔ جنہوں نے اس ” کارخیر “ میں مالی معاونت کی ہوتی کئی من پھول شرکاء جلوس پر پھینکنے کی ”سعادت‘ حاصل کی ہوتی ان کا نام سٹیج سے بار بار پکارا جاتا۔

نعرے بلند کرتے کرتے اگر اک نوجوان ہلکان ہوجاتا تو وہ یہ ذمہ داری دوسرے کسی نوجوان پے ڈال کر رخصت ہوجاتا۔وقفے وقفے سے مقررین کو بھی اظہار خیال کیلئے مدعو کیا جاتا جو اپنے نسبتی سلسلہ کی طویل تمہید کے بعد القابات کے لامتناہی دور کا آغاز کرتے ان شخصیات کو خراج تحسین پیش کرتے جو اپنی گوناں گومصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عقیدت کے ساتھ اس بابرکت محفل میں نہ صرف براجمان ہیں بلکہ روحانیت کا باعث بھی ہیں۔


 سٹیج پر موجود زعماء کے لیے تبرک لانے کاسلسلہ جاری رہتا ہے یوں وہ سفر کے ساتھ ساتھ” ریفریشمنٹ“ کو بھی انجوا ئے کرتے ہیں جبکہ حاضرین بھوکے پیٹ انہیں للچا ئی نظروں سے دیکھتے مگر عقیدت کے قرینہ کے باعث لب کشائی کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جلوس کے شرکاء کو بار بار امید دلائی جاتی ہے کہ اک بھاری بھر لنگر ان کا منتظر ہے جسکو کھانا ” عین ثواب “ ہے۔


 مقررین کی غالب اکثریت ایک دوسرے کی توصیف کرنے کے بعد چند کلمات میں جلوس کی غرض و غائیت بیان کرتی ہے، شرکاء جلوس کو خوش قسمت قرار دے کر آخرت کی کامیابی کی نوید سنائی جاتی ہے ناظم سٹیج ترغیب کیلئے کئی اور پروگرامات حاضرین کے سامنے رکھتے ہیں اور اس میں شرکت کی دعوت بھی دیتے ہیں اس اثناء میں اک چٹ صاحب مخاطب کو تھمائی جاتی ہے لیکن وہ اسے پڑھ کر اعلان کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں وہ سٹیج پے موجود بھاری بھر شخصیت کو مدعو کرتے ہیں اور چٹ ان کے حوالے کرتے ہیں وہ اپنی گفتگو کا آغاز ماشاء اللہ ، سبحان اللہ سے کرتے حاضرین کو باخبر کرتے ہوئے بتاتے کہ انجمن غلاماناں نے ”ولادت باسعادت “کے موقع پر سالگرہ مناتے ہوئے کئی ہزار پونڈ کا کیک کاٹ کر اک نیا ریکارڈ بنایا ہے اور پھر باآواز بلند نعرے ہوتے ہیں محبت، عقیدت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اسی اثناء میں اسٹیج پے غیر معمولی حرکت دیکھنے کو ملتی ہے ہٹو بچو کی کییفیت سے حاضرین دو چار ہوتے ہیں اسی لمحہ اک قدآور شخصیت مخصوص طرز اور رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے یہاں وارد ہوتی ہے پر جوش انداز میں انکی آمد کا اعلان کیا جاتا ہے پھر ان کے تعارف کا آغاز ہوتا ہے بھاری بھر کلمات کے بعد انہیں دعوت سخن دی جاتی ہے وہ عوام کے ٹاٹھیں مارتے سمندر پر منتظمین کو مبارک باد دیتے ہیں اور پھر اپنی مخصوص ” ٹون “ میں اس نوع کے جلوس پر تحفظات کا اظہار کرنے والوں پر خوب برستے ہیں اور ااپنے وجدان سے شرکاء کیلئے جنت کا راستہ انتہائی آسان بنا دیتے ہیں تمام افراد کو متحد اور فرقہ واریت سے دور رہنے کی تلقین کرکے رخصت ہوتے ہیں۔

اسی لمحے مساجد سے دوسری نماز کیلئے اذانوں کی صدا آنے لگتی ہے حاضرین بھوک کے ہاتھوں مجبور جلوس کے راستے پے خوانچہ فروشوں کا رخ کرتے ہیں جلوس کچھ دیر سست روی کاشکار ہوتا ہے پھر دوبار ہ اس رفتار سے گامزن ہوجاتا ہے اگلے چوراہے پر تاجر برادری کے نمائندگان نوٹوں والے ہار لیے جلوس کے شرکاء کو ”جی آیاں نوں“ کہنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں سٹیج سے انکی تعریف میں زمین و آسمان قلابے ملا دیئے جاتے ہیں۔


کئی بار عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جلوس کے اہتمام میں انکی مالی معاونت کا ذکر بطور خاص کیا جاتا ہے انہیں بھی دعوت خطاب دی جاتی ہے وہ اعلان فرماتے ہیں کہ آج کی شب نہ صرف جلوس کے راستہ پے چراغاں ہوگا بلکہ عہد نبوی کا کلچر نمایاں کرنے کی پوری کاوش کی جائیگی۔وہ ہر خاص و عام مدعو کرتے ہیں آخر وہ مقام بھی آ ہی جاتا ہے جہاں اس کا اختتام ہونا ہوتا ہے حاضرین لنگر پر ٹوٹ پڑتے ہیں نوک جھوک کے ساتھ ساتھ ہاتھا پائی دیکھنے کو ملتی ہے کھانے کے تمام تر آداب فراموش کردیئے جاتے ہیں پیٹ بھرنے کے بعد چراغاں کا سماں کرنے کا وقت آجاتا ہے ایک بازار میں لاکھوں قمقمے دیدہ زیب دکھائی دیتے ہیں اور اس میں چاشنی کیلئے” یثرب “کے ماحول کو پیدا کرنے کی جسارت کی جاتی ہے پہاڑوں کے علاوہ مقدس ہستیوں کے مکانات بنائے جاتے ہیں یہ مقام اب پکنک پوائنٹ دکھائی دیتا ہے مردو خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان بچے اور بچیاں اس کے نظارے میں محو ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ڈیک پر فلمی گانوں کی طرز کی نعتیں بھی چل رہی ہوتی ہیں گہری رات کے ساتھ رش میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اک نئی” دھکم پیل “شروع ہوجاتی ہے۔


ہمارے سامنے اک گاڑی آکر رکتی ہے بیرون ملک سے آئے مغربی لباس میں ملبوس دوست برآمد ہوتے ہیں ان کیلئے یہ ماحول اجنبی ہوتا ہے رات کے اس پہر میں ڈیک کی آواز پر وہ سوال اٹھاتے ہیں تو ہم اس سرگرمی کو ربیع الاول میں میلاد سے جوڑنے اور نبی آخرالزماں سے والہانہ عشق کے اظہار سے تعبیر کرتے ہیں موصوف اس رویہ کو” اک دن کا عشق “کا نام دے کر ہماری توجہ سیرت نبوی کی طرف دلاتے ہوئے کہتے ہیں پہلی سانس سے لیکر موت کی آخری ہچکی تک کونسا لمحہ ایسا ہے جس میں سیرت سے راہنمائی میسر نہ ہو ۔اطاعت کے بغیر یہ کیسا”عشق “ہے ۔اس جملہ پر دیگر افراد کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں بھر ی بزم میں راز کی بات کا جملہ کہہ کر ہم انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں سوار ہونے کی دعوت دے کر رخصت ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :