خطرہ ایمان

اتوار 10 مئی 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم میٹرک میں زیر تعلیم اور والدین کے ہمراہ ائیر فورس کی کالونی میں رہائش پذیر تھے،سرکاری بس سے سکول جاتے ، کلاس فیلو ابراہیم بھی ساتھ ہی سکول جاتے تھے، جب بھی انھیں وقت ملتا، ملاقات کرنے آجاتے،اس عمر میں عمومی طور پرہم عصر ان موضوعات پر بات نہیں کرتے جو انکا عنوان ہوتا تھا، یہ مذہبی اور بڑی مدلل گفتگو کرتے ، ہم بھی اپنی بساط کے مطابق جواب دیتے ، انکی غیر معمولی بات چیت نے ہمیں متاثر کیا، حسب روایت ہم دیوان میں بیٹھے بحث میں مصروف تھے، ایک دوست آنکلے، ان کے رخصت ہونے کے بعد گویا ہوئے کہ ان سے دور ہی رہا کریں ہم نے سبب پوچھا توکہا یہ قادیانی ہے، ہمارے والدین نے، ملنے جلنے سے منع کیا ہے۔

ہم نے کہا ، اپنے ہم عمر کے سامنے یہ اپنا موقف کس ڈھٹائی کے ساتھ رکھتے ہیں، کیا ان کے والدین نے انکو نہ روک رکھا ہوگا ؟باوجود اس کے وہ قلیل تعداد میں اور ہم حق پر ہیں،ان سے اجتناب ہی بہتر ہے، یہ کہہ کر وہ چل دیئے، ہم نے محسوس کیا ایمان کا انجانا خوف والدین کے دل میں تھاکہ مخالف فریق کہیں اپنی چرب زبانی سے محدود علم کے حامل بچوں کو ڈی ٹریپ ہی نہ کرلیں۔

(جاری ہے)


آج طویل مدت گذرنے کے بعد بھی یہ خوف نسل نو میں واضع دکھائی دیتاہے، ان دنوں قومی سطح پر انسانی حقوق کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت کا معاملہ زیر بحث ہے، سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، دلیل کو ہتھیار بنانے کی بجائے گالی گلوچ کا سہارا لیا جارہا ہے، نسل نو کوتویہ بھی معلوم نہیں کہ کس طرح علماء کرام نے پارلیمنٹ میں باقاعدہ مناظرہ کرکے حق اور دلیل کے ساتھ انکو ”مرتد“قرار دیا تھا، اس قماش کے لوگ جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے آج بھی سادہ لوح نوجواناں کو اپنے دام میں لانے کی حتیٰ الاامکان سعی کرتے ہیں،اسلام کا سطحی علم رکھنے والے بھاری بھر مراعات کے سامنے جلد مطیع ہوجاتے ہیں، ہم کچھ ایسے نوجواناں کو بھی جانتے ہیں، جو مغرب کی چکا چوند روشنوں کی تاب نہ لاتے ہوئے،دہریئے بن گئے، بعض خرافات میں کھو کر، نام کے مسلمان رہ گئے، ایسا کیوں ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے وہ کردار سازی میں کتنی معاون بن رہی ہے؟ یہاں جامعات کی اخلاق سوز کہانیاں بھی تو اخبارات کی زینت بنتی ہیں، جو نصاب ہمیں صراط مستقیم پر نہیں لا سکتا وہ دیگر مذاہب یا فتنوں کا تقابلی جائزہ لینے کا اہل کیسے بنا سکتا ہے؟یہ المیہ جدید علوم کا ہی نہیں، دینی مدارس کا بھی ہے، جن کو یہ زعم ہے کہ وہ اسلامی افرادی قوت تیار کر رہے ہیں۔

حلقہ احباب میں سے ایک نے تحقیق کی غرض سے ان اداروں کا رخ کیا تو جان کر حیرانی ہوئی کہ سرے سے سیرت کی کوئی کتاب یہاں پڑھائی ہی نہیں جاتی، بلکہ قرآن بھی فقہ کی روشنی میں پڑھایا جاتا ہے۔
 ڈاکٹر اسرار احمد  مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ عرب اور عجم کی فقہ الگ الگ ہے،قرآن کو ترجمے سے پڑھانے اور سماج میں اس کلچر کو پروان چڑھانے کا سہرا انکے سر ہے ،جس طرح سید مودودی نے” پولیٹیکل اسلام“ کی اصطلاح متعارف کروائی،اسلام کومسجد سے نکال کر معاشرہ میں لاکھڑاکیا، برملا کہا یہ غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں خدادا صلاحتیوں سے نوازا تھا،انھوں نے انتہائی شائستگی سے اور علمی بنیاد پر سوشلزم، کیمونزم کے حامیوں اور، فتنہ قادنییت کے علاوہ انکو بھی لاجواب کیا جو صرف قرآن ہی کو قانون کا ماخذ مانتے تھے، سید مودودی  نے” سنت کی آئینی حثیت“ کتاب لکھ کر اس فتنہ کے آگے بھی بند باندھ دیا۔


آج کے علماء کو یہ تو قلق ہے کہ سماج میں عریانی، فحاشی پنپ رہی ہے،معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے، لیکن جس انداز میں تربیت کاسلسلہ جاری ہے اس سے کسی انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔جس طرح زمانہ جاہلیت میں جانوروں کے گلے میں ٹیگ لگا کر انکو بتوں کے نام کیا جاتا تھا، اس طرح ہماری مذہبی کلاس نے بھی نسل نوکو مختلف عمامے پہنوا کر انھیں اپنی اپنی”ملکیت“ کر لیا ہے، دوسری کوئی فکر رکھنے، نیا نقطہ نظر اپنانے یا سوچنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ہے۔

اسی سطحی سوچ کی یہ عکاسی کر رہے ہیں جس طرح ایک زمانے میں سپیکر پر آذان کو کفر قرار دیا گیا تھا،انیسوی صدی مغرب میں ابھرتے علوم کا عہد تھا نئی نئی فلاسفی جنم لے رہی تھیں، مذہبی پیشواؤں سے تنگ سماج نئے علوم کا متلاشی تھا ،ہند میں قرآن کی چھپائی اور اشاعت کا معاملہ زیر بحث تھا، کم فہم علماء نے فرنگی کی مشین پراسکی چھپائی کوناجائز قرار دے دیا ، آج بھی اس نوع کے پیشواء ٹی وی پر قوم کو کھیرے کاٹنے کا اسلامی طریقہ بتانے میں مصروف ہیں، ایک طبقہ نسل در نسل سے ایک ہی کتاب پڑھا کر اس خوش فہمی میں غلطاں ہے کہ دیار غیر میں وہ دین پھیلا رہے ہیں،جبکہ حقائق بتاتے ہیں نائن الیون کا سانحہ جو خالصتا امت کے خلاف سازش تھی، اسکو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے والوں کی کثیر تعداد نے شعوری طور پراسلام کی جانب رجوع کیا، ہدایت انکو ملتی ہے جو طلب کرتے ہیں۔

یہی اللہ کی سنت ہے۔ہر شرسے خیر بھی برآمدہوتی ہے۔
 روایت ہے کہ مسجد میں کچھ نوجوان ذکر میں مشغول تھے حضرت عمر کا گذر ہوا آپ نے انھیں اٹھا دیا کہ اسلام جدوجہد کے لئے آیا ہے، ذکر لے لئے نہیں، ہمارے ہاں مذہبی طبقہ نوجوانان کی صلاحتیوں کو زنگ آلود کررہا ہے،ساری قوتیں اپنی فقہ کی بالادستی پر صرف کی جارہی ہیں، قرآن کی تفسیر اور سیرت کی کتب کے مطالعہ کے بعد بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے وہ پڑھایا جارہا ہے جسکی ضرورت نہیں، وہ نہیں بتلایا جا رہا جو عین دین ہے،ان شخصیات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے ،جن کے بارے میں ہم جواب دہ ہی نہیں نہ ہی وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں، اس طرح عصر حاضر کے مسائل کی قومی راہنمائی سے راہ فرار اختیار کیا جارہا ہے۔


 گائنی ایشو کے متعلق ایک وڈیو دیکھنے کو ملی جس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مغربی ماہر گاناکولو جسٹ کو قرآن کی آیات کی روشنی میں بتلا رہے تھے کہ ان علوم سے قرآن نے چودہ سو سال پہلے آگاہی دی تھی جس کا سائنس نے انکشاف آج کیا ہے، ہمارے علماء ابھی تک نور ، بشر، حاضر، ناظر،نماز میں شلوار کی پوزیشن، داڑھی کے سائز کے آگے نہیں بڑھے، بقول اقبال جو تھا نہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا ،والا معاملہ درپیش ہے۔


ہر نئے فتنہ کی آمد پر ہمارا یمان اس لئے خطرہ میں پڑ جاتا ہے، کہ مخالفین ہم زیادہ علوم پر دسترس رکھتے ہیں، ہماری بشری کمزوریوں سے بھی آگاہ ہیں، ہمارا نوجوان اپنی کم علمی کی بدولت سامنا کرنے سے قاصر ہے ۔ہماری سرکار اس لئے مصلحت اختیار کر لیتی ہے کہ اسکی یہ ترجیہی ہی نہیں،نہ ہی قرآن کے جدید علوم پر تحقیق انکی خواہش ہے، لارڈ میکالے کا نظام تعلیم قوم کو غلام بنانے کے کافی ہے،انھیں بھی وہی مذہبی طبقہ” سوٹ“ کرتا ہے،جو باہم الجھا رہے، اور سیاسی نظام بھی وہی جو عالمی مالی امداد کی ضمانت دے، اس لئے نیا فتنہ اس ہر شہری کے ایمان کے لئے خطرہ ہے جو اسلامی تعلیمات کو صرف اور صرف اپنے مسلک اورفقہ کے مطابق حاصل کرنے ہی کو کافی خیال کرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :