خدیجہ کو مبارک ہو، لیکن میں خوش نہیں
جمعہ 4 اگست 2017
(جاری ہے)
دوہفتے گزر چکے،ملتان کے نواحی علاقے راجہ پورمیں زیادتی کے ایک واقعے کے بعد بے غیرتوں کے ایک گروہ نے پنچایت (جو کسی دور میں مفت اور فوری انصاف کی علامت تھی )کے نام پر ایک ایسا فیصلہ کیا جو انسانیت کے چہرے پرایک بدنما داغ بن گیا۔ سولہ جولائی کوجب ایک کم عمر لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیاتو ڈنڈے کے زور پر بڑے بڑوں کے منہ کھلوانے والی پنجاب پولیس اس واقعے سے ہی بے خبر رہی ۔ دو دن بعد زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کے باپ نے زیادتی کرنے والے لڑکے کی بہن کو اپنے بیٹے کے حوالے کردیا۔ایسی ایسی شرمناک تفصیلات مجھ تک پہنچی ہیں کہ لکھنے سے قاصر ہوں ،لرزا دینے والی تفصیلات کہ خود سنتے ہوئے میں اذیت کا شکار رہا ۔ اس قدر اذیت کہ خواہش کے باوجود اس موضوع پر لکھنے کے قابل نہ ہوسکا۔ پولیس لیکن سوتی رہی تا آنکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے طوفان بپا کردیا۔ برادر محترم وجاہت مسعود سے گفتگو میں یہ موضوع چھڑا تو کہنے لگے اس موضوع پر ضرور لکھو،حضور والا!اس معاشرے کا حال کیا لکھوں جہاں مرد کا کیا بھی عورت کو بھوگنا پڑتا ہے ؟۔ ایک واقعہ ہوا جبری زیادتی کے ظلم کا شکارعورت، اس کا بدلہ دے تو بھی عورت ، کبھی کبھی تو مرد ہونے پر شرم آتی ہے ۔ ہائے یہ معاشرہ !جہاں اللہ کے رسول ﷺ کے نام پر جان دینے اور لینے والے جابجا پھرتے ہیں لیکن ان کے کردا ر کو اپنانے والے خال خال۔ وہ ہستی جس نے یتیموں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاوٴ کرنے کی تلقین کی ۔ ہائے افسوس کہ ایک یتیم بچی کے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا ہی خاندان تھا۔ اس کو زیادتی کے لئے اپنے بیٹے کو پیش کرنے والا اس کے باپ کی جگہ تھااور نام ہے امین !جی ہاں دیکھا آپ نے اس نے امانت کی حفاظت کیسے کی ؟اپنی ہی رشتہ دار بچی کوجبری زیادتی کا نشانہ بنانے والے کا نام بھی خوب ہے ،حق نواز!مر د حق نے خوب حق نواز ی کی ۔ ۔ معا ملہ اس وقت کھلا جب لڑکی کی ماں داد رسی کے لئے تھانے گئی ۔ تھانے کے بادشاہ ایس ایچ اور نے دکھیاری ماں کو شام تک تھانے میں بٹھائے رکھا،شام کو ایس پی کے حکم پر انہیں خواتین کے داد رسی کے لئے بنائے گئے سنٹر میں بھیج دیا۔ داد رسی سنٹر میں بچی کا میڈیکل ہوااور مقدمہ درج کیا گیا ۔ تحقیقات ہوئیں تو شرمناک تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ملک بھر کے چینلز پر ماتم بپاتھا لیکن صوبے کی پولیس کے سربراہ کو صرف رپورٹ درکار تھی ۔حضور والا ،رپورٹ تو صوبے کی ہر دیوار پر لکھی ہے ،پڑھنا سیکھئے اور اس سے بھی زیادہ اپنے فرائض پر عملداری کا سبق ضروری ہے ۔ غنیمت ہوئی صوبے کا حکمران بچیوں کی دادرسی کے لئے پہنچا ،انصاف کا وعدہ کیا اور بہتر گھنٹے میں رپورٹ طلب ۔ رپورٹ پیش خدمت ! لیکن پولیس کے شیر ابھی تک مرکزی ملزم کو تلاش نہیں کرپائے ۔ ملک کے سب سے بڑ ے منصف نے وقت نکالا تو بھی رپورٹ طلب ، رپورٹ پیش خدمت! لیکن اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پہلے واقعے میں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کی میڈیکل رپورٹ مشکو ک ہوچکی اور حیران کن امر یہ ہے کہ رپورٹ تیار کرنے والی ڈاکٹر بھی چھٹی پر جا چکی،دیکھتے ہیں پولیس اپنے وعدے کے مطابق سات دن میں چالان پیش کرتی ہے یا نہیں ۔ اب بتائیے میں کیسے خوش رہوں ؟لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے خوش نہ ہونے پر خدیجہ ناراض نہیں ہوگی کیونکہ کل ہی کبیروالا سے خبرآئی ہے کہ پندرہ سال کی ایک بچی کو جبری زیادتی میں مزاحمت کی قیمت چکانے کے لئے اپنی ٹانگ سے محروم ہونا پڑا ۔ ایک اور سن لیجئے لودھراں میں ایک شادی شدہ خاتون کو سسرال نے تیزاب پلاکر مارڈالا۔تو جناب ان حالات میں آپ ہی بتائیے کہ کیسے خوش رہا جائے ؟کیا یہ انسانی معاشرہ ہے ؟قانون اپنی راہ کیوں نہیں اپناتا؟پولیس کیوں اپنے فرائض سے غافل ہے ؟ نواز شریف کی چوری کا فیصلہ چھ مہینے میں سنانے اور عدالتی کارروائی کی کڑی نگرانی کرنے کا حکم دینے والے منصف کہاں ہیں ؟کیاقوم کی بیٹیوں کی سلامتی کا فرض پولیس کے ساتھ ساتھ عدالتوں کے بھی فرائض میں شامل نہیں ؟دو چاریا دس بیس مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے تو کیوں نہ لوگ اس گھناوٴنے فعل سے بازآجائیں ؟لیکن ایسا کرے گا کون ؟ ہمیں ہی کرنا ہوگا ، اسی قوم کو ،آسمانوں سے فرشتے اتر کر یہ فرض انجام نہیں دیں گے کہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے لیکن اگر ہم یہ نہ کر سکے تو پھر ”داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں “۔
کالم لکھ چکاہوں تو عائشہ گلالئی کے عمران پر بدکرداری کے الزامات کی خبر یں مل رہی ہیں ۔ عائشہ نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران عمران خان پر بہت سنگین الزامات عائد کئے ہیں ۔سوشل میڈیا پر دونوں فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے تابڑتوڑ حملے کئے جارہے ہیں ۔ بادی النظر میں عمران خان کا تشخص ایک رنگین مزاج انسان کا ہے ،خاکسار ان کی سیاسی پالیسیوں پر تنقید کرتا رہتا ہے لیکن یہ معاملہ ذرا ٹیڑھا محسوس ہورہا ہے ۔ عمران کے سیاسی نظریات سے مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا جہاں کا گند ان کے سرڈال دیا جائے ۔ یہ بات سمجھ سے باہرہے کہ چار برس تک عائشہ گلالئی کی غیر ت نازیبا پیغامات برداشت کرتی رہی اور اب اچانک اس کی غیرت جاگ گئی ۔ عائشہ گلالئی نے اگر عمران خان کے خلاف اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی نہ کی تو وہ خود تو جھوٹی ثابت ہو گی ہی اس معاشرے کی خواتین کے لئے بھی باعث شرم ثابت ہوگی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.