اسلامی ریاست میں عزت کی حفاظت غیر یقینی کیوں؟

اتوار 13 ستمبر 2020

Komal Chaudhry

کومل چوہدری

پردہ کیا کرو۔
اپنے کپڑے دیکھیں ہیں ۔
اسلام عورت کو پردے کی تلقین کرتا ہے۔
تم عورت زادی۔۔نرم و نازک۔
یہ وہ جملے ہیں جو مردوں اور عورتوں دونوں کی زبانوں سے آپکو سننے کو ملیں ہونگے۔ اور کیوں نہ ملیں جب فرسودہ روایات جو ہزاروں برس سے چلتی آرہی ہوں اور نسل در نسل پروان چڑھ رہی ہوں اس معاشرے میں ایسے جملے کَسے جانا معمول کی بات ہے۔


کیا آپ نے کبھی کسی مرد سے،ماں باپ، سے، یا بہن بھاٸ سے یہ کہتے سنا ہے  کہ
 کیا تمہیں معلوم نہیں اللہ مَردوں کو پہلے پردے کا حکم دیتا ہے بعد میں عورت کو؟
کیا تمہیں معلوم نہیں اللہ تمہیں پہلے نظریں جھکانے کا حکم دیتا ہے ،شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے پھر عورت کو؟
کیا کبھی سکھایا گیا عورت کی  عزت کرنی ہے ؟
کیا کبھی سکھایا گیا کہ اگر مرد اور عورت میں سے کوٸ بھی تمہیں اپنی طرف ما ٸل کرنے کی کوشش کرے تو اپنے آپ کو کیسےبچانا ہے ؟
کیا کبھی کسی نے نوجوان بچے کی راہنماٸ کی کہ اس نے اپنے آپ کو، اپنے نفس کو ۔

(جاری ہے)

۔۔۔کیسے قابو کرنا ہے؟ اپنے ٹھرک کو کیسے ختم کرنا ہے ؟
نہیں! بلکہ ہم شرارت سمجھ کے ہنسنا مناسب سمجھتے ہیں۔ یا ہم لوگ بات کرتے شرماتے ہیں۔ یا شاٸد عورت کے کپڑوں، اسکے زینت و زباٸش اسکی حیا پر تبصرہ کرنے پر اتناوقت لگا دیا ہے کہ مردوں کو با حیا اور نظریں جھکانے کا شعور دینا ہی بھول گۓ ہیں۔ ہم بھول گۓ ہیں کہ  درخت کو کاٹنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ان کا جڑ سے خاتمہ نہ کیاجاۓ ۔

جس سے وہ پروان چڑھا تھا ۔بد قسمتی سے ہمارا شمار ایسے معاشرے میں ہوتا ہے جہاں کوٸ بھی اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ہر کوٸ اپنے آپ کو بچانے کےلیے دوسروں کو نشانے پر رکھتا ہے  ۔
کیا جن بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ان پر پردہ فرض تھا ؟
کیا وہ عورتیں جن کی عصمت دری کی گٸ ان کا لباس نا مناسب تھا؟
کیا جانوروں پر بھی پردہ لازم ہے؟
کیا مُردے پردے میں لپیٹے نہیں جاتے؟کیا ان کو بھی محرم کے  ساتھ دفنایا جاۓ؟
کیا آپ لوگ اتنے کمزور ہیں کے محظ اک لباس نا مُناسب ہونے پر اپنا ایمان داٶ پر لگا دیں گے؟ آپ تو غیرت مند نہیں تھے؟ لباس کا حوس سے کوٸ تعلق نہیں اگر ہوتا تو  ننھے پھولوں کے ساتھ یہ ظلم ہوتا ؟
ان سب باتوں کا جواب کھوجیں گے تو ہی حل نکلے  گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی روک تھام کیلیۓ اپنا کردار نبھایا جاۓ۔ اور حل تلاش کیۓ جاٸیں ۔تاکہ ان کو بروقت عمل میں لا کر حالات پر بہتر طور پر قابو پایا جاۓ۔
میری حکومت سے التجا ہے کہ ایسے درندوں کو سرِعام پھانسی پر لٹکاکر               عبرت کا نشان بنایا جاۓ ۔
اسکولوں اور کالجوں میں بچوں اور بچییوں کو صیح اور  غلط میں فرق سکھایا جاۓ ۔

انکو انکے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی دی جاۓ ۔ ان کو سیلف ڈیفنس کی تعلیم دی جاۓ۔ اور اس کو تعلیم کا ایک اہم حصہ قرار دیا جاۓ ۔
قانون کے محافظ جو اپنے گندے غلیظ طریقہ کار سے جن کی وجہ سے با عزت گھرانے پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کا رُخ کرتے گبھراتے ہیں اُن  کو شعور دیا جاۓ۔ اور کارواٸ کو احسن طریقے سے حل کرنے کی ٹرینگ دی جائے ۔


علاوہ ازیں والدین اپنے بچوں لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کو لڑکپن میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی راہنماٸ کریں ان کے افعال پر نظر رکھیں اور ان کی وقت بہ وقت کاٶنسلنگ کرتے رہیں۔ تاکہ آنے والی نسلیں اس بد فعالی کے ظلم سے بہتر طور پر لڑ سکیں۔ ذہنی اور جسمانی طور پر خود کو مضبوط بنا سکیں۔اس پر جتنا جلدی کا م ہو اتنا بہتر ہے کیوں کہ درندے آزادانہ گھو م رہہیں ہیں۔ عصمت دری کے حادثات دن بدن پروان چڑھ رہے ہیں۔ ملک اپنی ساکھ کم ہوتے دکھاٸ دے رہا ہے ۔۔۔۔۔ اب نہیں تو کب؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :