آہ جرنیلِ صحافت ضیا شاہد

بدھ 14 اپریل 2021

Luqman Asad

لقمان اسد

جب روز نامہ خبریں کا آغاز لاہور سے ہوا تو میں اس وقت لاہور ہی میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب اردو صحافت ایک مخصوص دائرے کے گرد ہی محض گھوم رہی تھی۔ روایتی انداز اور روایتی خبریت ۔ ضیا شاہد نے جدید اردو صحافت کی بنیاد رکھی ۔ انھوں نے وہ مخصوص اور روایتی دائرہ توڑ کر صحافت کو ایسی وسعت عطا کی کہ اردو صحافت ہر گھر کا حصہ اور ضرورت بن گئی۔

گو یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے انتھک جدوجہد اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اردو صحافت کو وہ پذیرائی اور جلا بخشی کہ آج اردو صحافت کو ملک بھر میں نہ صرف ایک خاص مقام و مرتبہ اور اہمیت حاصل ہے بل کہ اردو صحافت کو عوامی سطح پہ عزت و احترام اور مقبولیت و اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ ایک دبنگ اور نڈر صحافی تھے ۔ جو فیصلہ کرتے اس پہ ڈٹ جاتے ۔

بڑے بڑے مافیاز اور پھنے خاں ان کا صرف نام سن کر ہی دبک کر رہ جاتے ۔ وہ ایک تحریک برپا کر دینے والی پر اثر صحافتی شخصیت تھے۔ دریائی علاقہ کے دور دراز،مشکل اور محفوظ مقامات پر بسیرا کرنے والے وہ ڈکیت اور اشتہاری جو رات بھر قریبی علاقوں میں ہر طرح کی مجرمانہ وارداتیں کرتے اور طلوعِ آفتاب سے قبل قانون کی نظروں سے اوجھل ہو کر اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چلے جاتے جنہیں نکے تھانے داروں کی بھی سپورٹ حاصل ہوتی تھی ۔

ان خطرناک عادی مجرموں کے گرد ضیا شاہد نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر ایسا گھیرا تنگ کیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ جن میں لاکھانی گینگ ، کُرلی گینگ ، تھوری گینگ اور بدنام زمانہ چھوٹو گینگ سر فہرست ہیں۔ ضیا شاہد نے معروف انقلابی رہنما''چی گویرا '' کے اس نظریہ پر اپنی زندگی بسر کی کہ ''تم دنیا میں کہیں ہو اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی بھی انسان پر ظلم ہوتا ہے، تم اسے محسوس کرو اور اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھو ''۔

معاشرہ میں موجود مظلوموں کے حق میں ایسی جرآت مندی اور درد مندی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے کہ اپنے اخبار کا سلوگن ''جہاں ظلم وہاں خبریں''سے منسوب کیا ۔ ''مختاراں مائی''سے لے کر ''مرجان بی بی ''اور ''قصور کی مظلوم بیٹی''ذینب بی بی ''کے ساتھ ہونے والے جبر و ستم کے خلاف انھوں نے ایسے دلیرانہ انداز میں آواز اٹھائی اور کلمہء حق بلند کیا کہ اس وقت کی حکومتیں لرزہ بر اندام رہیں اور انصاف کے تقاضے ریاستی نظام کو پورے کرنا پڑے ۔

بھارتی جارحیت کے خلاف وہ وطن عزیز کے ایک ایسے غیرت مند سپوت کے روپ میں سامنے آئے اور اس حوالے سے ایسا مجاہدانہ کردار ادا کیا کہ مجبوراً دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پانی کے معاملہ میں ہندوستان، پاکستان کے ساتھ غیر اصولی راستے پر گامزن اور کھلی ناانصافی برت رہا ہے۔ وہ ایک ایسے صحافتی جرنیل تھے جن کا کردار صحافت کی دنیا میں ایک مسلمہ حیثیت رکھتا ہے کہ جسے صحافتی تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی ۔

شہرہ آفاق شاعر محسن نقوی نے کہا تھا
مطمئن ہوں مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
وہ صحافتی افق پہ جگمگانے والے ایسے آفتاب کی صورت تھے کہ جس سے سبھی اپنے تو کیا پرائے اور غیر بھی روشنی پاتے رہے۔ وہ صرف ایک اخبار کے مالک یا چیف ایڈیٹر نہیں تھے بل کہ وہ اس باب میں ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔

آج کے بڑے بڑے نامی گرامی کالم نویسوں اور لکھاریوں نے'' خبریں ''کے ادارتی صفحہ ہی سے اپنے صحافتی کیریر کا آغاز کیا ۔ ''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے ''۔ ہمارے استاد ، ہمارے صحافتی پیر و مرشد ضیا شاہد نے ایک مختصر سی زندگی میں کتنے انقلاب برپا کیے۔ وہ اس پیرانہ سالی میں بھی کہ جب سہارے کے بغیر چل پھر بھی نہیں سکتے تھے ''سرائیکی خطہ ''کے عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے دن رات بے چین رہتے تھے۔

وہ سمجھتے تھے کہ سرائیکی خطہ اتنا پسماندہ ہے اور اس کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے وہاں کے عوامی نمائندے بھی محض ووٹ بٹورنے کے لیے بیانات کی حد تک ہی مخلص نظر آتے ہیں جب کہ عملی طور پر ان کی کارکردگی اس حوالے سے صفر ہے تو یہ بیڑا بھی آخر دم تک انہوں نے ہی اٹھائے رکھا۔ کبھی وہ'' خبریں ''سرائیکی مشاعروں'' کا اہتمام کرتے تو کبھی پورے انہماک کے ساتھ ''خبریں ''سرائیکی مشاورت''کے عنوان سے کانفرنسوں کا انعقاد کرتے دکھائی دیتے۔

وہ اپنے اکثر کالمز میں کہ جب وہ اپنے اخبار کے ابتدائی دنوں کا تذکرہ کرتے تو خوشنود علی خان کا ذکر نہایت خوبصورت الفاظ میں کرتے جب کہ اس ضمن میں منافقین کا معاملہ یکسر الگ ہے۔ وہ ایسے افراد کو معاف نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے کہ وہ خود ایک صاف شفاف اور درد مند دل رکھنے والی شخصیت تھے اور منافقت سے انھیں سخت چِڑ تھی۔ جواں سال بیٹے عدنان شاہد کی وفات کے دل سوز صدمہ نے انھیں بوڑھا کیا۔

وہ اس جدائی کی تاب نہ لاسکے۔ زندگی کی جنگ تو وہ بہر حال لڑتے رہے لیکن ایک باپ کے لیے ایسی صورتِ حال سے گزرنا کتنا کٹھن ہوتا ہے یہ دکھ وہی محسوس کرتا ہے جواس دردناکرب سے دو چار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے خوبصورت بیٹے عدنان شاہد کے نام سے دکھی انسانیت کی خدمت کی غرض سے ''عدنان شاہد فاؤنڈیشن''کی بنیاد رکھی ۔ وہ بے مثل تھے، بے نظیر تھے۔ محب وطن ایسے کہ غدارانِ وطن کے لیے معافی ان کے مزاج کا حصہ کبھی نہیں رہی۔

وہ تمام عمر ایسے کرداروں کا پیچھا کرتے رہے اور ان کے دجل و فریب کوہر فورم پر عیاں کیا۔ ضیا شاہد نے ایسی یادگار اور شاندار تصانیف تخلیق کیں کہ جو پڑھنے سے تعلق رکھتی اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ بلا شبہ ہر انسان نے اپنے وقتِ مقررہ پر اس فانی جہان کو خیر باد کہہ جانا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی مغرت فرمائے اور انہیں کروٹ جنت الفردوس کی راحتیں نصیب فرمائے۔

ان کے ہونہار فرزند جناب امتنان شاہد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ضیا شاہد جیسے محب وطن اور قابل فخر سپوت کا ہم سے جدا ہونا اہل وطن کے لیے ناقابل طلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ صحافتی دنیا کا یہ خلاء ان کے فرزندِ ارجمند جناب امتنان شاہد کی صورت میں پورا فرمائے(آمین)''حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا''۔ ہر مظلوم کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے والا ضیا شاہد ہر لاچار ، مجبور اور بے کس کے دکھ اور محرومی کو اپنا درد سمجھنے والا ضیا شاہد۔ وہ دنیائے صحافت کا روشن باب ۔ وہ جدید اردو صحافت کا موجد ، وہ جدید اردو صحافت کا بانی ۔ آہ -جرنیل صحافت ۔ضیاشاہد ۔ اب ڈھونڈ انھیں چراغِ رخِ زیبا لے کر''۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :