موبائل فون آکسیجن سے زیادہ ضروری کیوں ؟

بدھ 7 اکتوبر 2020

Mahvia Gull

معاویہ گل

یوں تو موجودہ دور میں ہر شخص اس سحر میں مبتلا ہے جسے سکرین ایڈکشن کا نام دیا گیا ہے۔ چونکہ موبائل فون نعمت کے ساتھ ساتھ لعنت بنتا جا رہا ہے اور اس لعنت کا شکار ذیادہ نوجوان نسل ہے ، اگر ہمارے ملک پاکستان کی بات کی جاے ٴ تو یہاں کی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، اور نوجوان ہی کسی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں لیکن یہاں نوجوانوں کے لیے موبائل فون کہ بغیر سانس لینا بھی دشوار ہے۔

ایک تحقیق کہ مطابق ایک عام آدمی دن میں تقریبا ۲۶۷۱ کہ درمیان اپنا فون چیک کرتا ہے۔ سرِ فہرست ۱۰ فیصد صارفین کے لیے یہ تعداد ۲ گنا بڑھ کر ۵۴۲۷ ہو جاتی ہے۔ یہ ہر سال تقریبا ۱ ملین اور فون سکرین پہ وقت کہ ۴۲۔۲ گھنٹے بنتے ہیں۔ زیادہ سنجیدہ صارفین اپنے موبائل فون پہ ۷۵۔

(جاری ہے)

۳ گھنٹے سرف کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا میں متن کو پڑھنے اور بھیجنے سے لے کر سوشل میڈیا پر اسکرولنگ تک ہر طرح کی بات چیت شامل ہے۔

ہم اپنے فون پر ہر دن کتنا وقت گزارتے ہیں، اس بات کا اشارہ ہیں کہ ان آلات کا ہماری زندگی میں کیا اہم کردار ہے۔ گو کہ دورِ خاضر کا انسان موبائل فون کہ ذریعے زندگی گزار رہا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی موبائل فون پہ تلاش کیا جانے لگا ہے، چاہے معلومات کا حصول ہو، تفریخ ہو خواہ کچھ بھی ہو یہاں تک کہ کھیل بھی ، جب پہلے کسی شخض کو کرکٹ کھلینی ہوتی تھی تو وہ کھیل کہ میدان کا رخ کرتے تھے ، اب موبائل فون پہ ہی کھیل کھیل لیا جاتا ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو اس کہ استعمال کے بنیادی دو ہی مقاصد ہیں ایک کمیونیکیشن اور دوسرا انفرمیشن ، اگر ان کہ علاوہ بات کی جاے ٴ تو تیسرا استعمال انٹرٹینمنٹ کہلاتا ہے جو نہایت خطرناک ہے۔ اور یہی بنیادی وجہ بنتی ہے جو موبائل فون کہ نقصانات کی طرف لے کہ جاتی ہے۔ جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی و نفسیاتی صحت کہ ساتھ بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ اگر جسمانی صحت کی بات کی جائے تو تو ڈاکٹرز کہ مطابق ڈیجیٹل آی سٹرین کی علامات دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں، جن میں دھندلا نظر آنا ، آنکھوں کا خشک ہو جانا ، گردن و کمر درد اور سر درد وغیرہ شامل ہیں۔

ایک تحقیق کہ مطابق سکرین ایڈکشن کہ باعث دماغ کہ اندر موجود گرے میٹر سُکڑنے لگ جاتا ہے۔ اس کہ ساتھ ساتھ ذیابطیس کی شرح بھی کافی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ذہنی و نفسیاتی صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ موبائل فون کا غیر موثر استعمال خاموش قاتل کی حثیت رکھتا ہے۔ اس کے باعث طبیعت میں چڑا چڑاپن ، غصہ اور ڈپڑیشن جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔

ایک سروے رپورٹ کہ مطابق سکرین ایڈکشن کہ لوگ اپنے بچوں پہ ذیادہ چلاتے ہیں، اور ان کی اذدواجی زندگی بھی کا فی حد تک متاثر ہوتی ہے۔
بلا شبہ اسکے نقصانات کی فہرست کافی لمبی ہے، لیکن اس سے چھٹکارا پانا نا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں چند ایک احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں جو ہمیں حقیقتًا اس مسلئے سے چھٹکاڑا دلوا سکتی ہیں۔ بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ فل فور نتا یٴج کی امید رکھنے کی بجاے آہستہ آہستہ مستقل مزاجی کیساتھ اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

سب سے پہلے سکرین لائٹ کو کم کر دیں ، جتنا وقت آپ سکرین کو دیتے ہیں اتنا وقت اندھیرے میں بھی گزاریں۔ اپنی ضروریات کو ہواہشات پہ ترجیحی دیں تا کہ آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔ اور آپ اپنا وقت اُنھی کاموں میں صرف کریں جو آپ کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اپنے لیے وقت کو محدود کر لیں کہ آپ کب اور کتنا وقت موبائل پہ گزاریں گیں۔ اپنے موبائل فون کو بیڈروم سے باہر چارج کریں۔

اور تمام تر سوشل میڈیا چینلز کو تب تک نہ کھولیں جب تک کہ ضرورت نہ ہو۔ اپنی ہوم سکرین پر جو کچھ ہے اسے بھی محدود کریں، صرف ای میل، کیلینڈر اور جو کچھ بھی آپ روزانہ اور ضروری استعمال کرتے ہیں صرف اُنھیں ایپ کو رکھیں اور باقی تمام تر ایپس کو دوسری یا تیسری اسکرین پر لیں جائیں ، کیوں کہ اگر آپ انہیں نہیں دیکھیں گیں تو ان کے استعمال کے امکان کو بھی کم کر دیں گے۔

کوشش کریں جب آپ کھڑیں ہوں تو ہی موبائل فون کا استعمال کریں ، ایسا کرنے سے کھڑے کھڑے آپ جلدی تھک جائیں گیں اور موبائل فون کا استعمال کم کر دیں گیں۔ ان تمام تدابیر پہ عمل کر کہ آپ خود کو اور اپنے اردگرد موجود اپنے پیاروں کو اس لعنت سے چھٹکارا دلوا سکتے ہیں ۔ کیونکہ اس سے حاصل ہونے والے وقتی خوشی آنے والے وقت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :