جنسی دہشت گردی اور تلخ حقیقیت
پیر 5 اکتوبر 2020
عائشہ ایک چھوٹی سی معصوم بچی اپنی اماں کو بہت درد سے بتا رھی تھی کہ بابا کے جو دوست گھر آتے ہیں ۔وہ اکثر جب وہ اس کے ساتھ کھلیتے ہیں تو اس کے نرم گالوں پر کاٹتے ہیں۔ ماں نے عایئشہ کی بات بہت بے دھیانی سے سنی اور اسے ڈانٹ دیا کہ وہ ہمیشہ شکایتیں ہی کرتی رہتی ہے۔ مگر ماں ایک لمحے کے لیے بھول گی کہ عاہشہ کے جن معصوم گالوں پر جس بھیڑیے نے کاٹا تھا اس کے دانت اس کی روح کو آج تک چیرتے ہیں۔ آٹھ سال کا زین اس وقت پوچھنے سے قاصر تھا کہ ساتھ والے گھر کے انکل ابرار ہمیشہ اسے میٹھی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ وہ آج تک نہیں سمجھ پایا کہ اس دوپہر جب وہ گیند لینے اس کے گھر گیا تو اس اندھیرے کمرے میں اس ہی کے ساتھ ایسا کیوں ہوا کہ وہ آج تک خواب میں ڈر جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جب یہ نعرہ زور پکڑ گیا"میرا جسم میری مرضی"اس وقت بہت سے حمایتی میدان میں نکل آے۔ مگر ان میں سے کسی ایک کی توجہ بھی ریپ اور بالخصوص گینگ ریپ کے مسئلے میں نہیں گئی۔ کسی ایک نے بھی کوشش نہیں کی کہ اس بات کو اجاگر کیا جائےکہ ہر صورت دفعہ 376 کے قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔ پاکستان میں دفعہ 376 کا قانون بنا ہی اس لیے تھا کہ مجرم کو دو سال سے لے کر دس سال کی سزا دی جاے۔ لیکن بات اب اس قانون کی حد سے تجاوز کر گی ہے۔ جتنی تیزی سے یہ ظلم معاشرے میں پھیل رہا ہے اب اس کی سزا سرعام پھانسی ہے۔ ہمارے ایک اور مسئلہ بھی غور طلب ہے کہ ہم اپنے میڈیا کے ذریعے گھروں اور سکولوں میں بھی اپنے بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دے پا رھے۔ مشرق کی ایک روایت شرم و حیا ہے جو ہم اپنے بچوں کے ساتھ محلوظ خاطر رکھتے ہیں۔ یہ جرنشین گیپ ہے جس کی بنا پر بچے گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کو نہیں سمجھ پاتے۔اکثر ہم اپنے بچوں کی باتوں کو غور سے نہیں سنتے ان کی باتوں پر غور نہ کرنے سے برائی جنم لیتی ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا پر بے تکے ڈرامے چلائے جا رھے ہیں۔ جس سے بےراہ روی بڑھ رھی ہے ہم حقیقت سے دور ہوکر صرف خوابوں کی دنیا تک محدود ہوگے ہیں۔ جب آپ ڈراموں کواخلاقی اقدار سے نکال کر عشق ومحبت اور خاندانی سیاستوں تک محدود کر دیں گے جب آپ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں اپنی جان چھڑوانے کے لیے موبائیل تھاما دیں گے اور ان پر نظر نہیں رکھیں گے تو پھر آپ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بےراہروی کی شکایت نہیں کرسکتے۔ دین سے دوری بھی اس بے چینی کا ایک سبب ہے۔ پچھلے دور اس لیے بہتر تھے کہ اس وقت ٹیکنالوجی کا غلط استعمال نہیں تھا۔ اس وقت اخلاقی اقدار بچوں کو ہر صورت سیکھای جاتی تھیں
میری حاکم وقت سے گزارش ہے ہمارے پاکستان میں جو یہ بے چینی جنم لے چکی ہے۔ ظلم بڑھ رھا ہے جنسی دہشت گردی جیسے واقعات ہمارے ذہنوں اور معاشرے کے افراد کو تباہ کر رہے ہیں اس پر جلد سے جلد کوی سخت قانون مرتب کرکے سخت سزائیں دی جاہیں۔ تاکہ یہ ظلم کی رات ڈھلے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رھے تو یہ معاشرہ بیمار ذہنوں کو جنم دے گا۔ اور ان بیمار ذہنوں کو تقویت دے گا جس کا انجام بہت خوفناک ہو گا۔ اب اس ظلم کی رات کو ڈھل جانا چاہیے۔ خدار !اس بات پر غور کیجے۔ !
(جاری ہے)
اور اس ایک واقعہ کی وجہ سے وہ اپنے بزرگوں سے بدتمیزی پر اتر آیا
آج قلم ایک ایسے موضوع پر اٹھا بیٹھی ہوں! جیسے لکھتے ہوے میرے ہاتھ کانپ رھے ہیں دل دکھ سے بھر رھا ہے اور آنکھوں میں نمی ہے۔
ہمارے ہاں جب یہ نعرہ زور پکڑ گیا"میرا جسم میری مرضی"اس وقت بہت سے حمایتی میدان میں نکل آے۔ مگر ان میں سے کسی ایک کی توجہ بھی ریپ اور بالخصوص گینگ ریپ کے مسئلے میں نہیں گئی۔ کسی ایک نے بھی کوشش نہیں کی کہ اس بات کو اجاگر کیا جائےکہ ہر صورت دفعہ 376 کے قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔ پاکستان میں دفعہ 376 کا قانون بنا ہی اس لیے تھا کہ مجرم کو دو سال سے لے کر دس سال کی سزا دی جاے۔ لیکن بات اب اس قانون کی حد سے تجاوز کر گی ہے۔ جتنی تیزی سے یہ ظلم معاشرے میں پھیل رہا ہے اب اس کی سزا سرعام پھانسی ہے۔ ہمارے ایک اور مسئلہ بھی غور طلب ہے کہ ہم اپنے میڈیا کے ذریعے گھروں اور سکولوں میں بھی اپنے بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دے پا رھے۔ مشرق کی ایک روایت شرم و حیا ہے جو ہم اپنے بچوں کے ساتھ محلوظ خاطر رکھتے ہیں۔ یہ جرنشین گیپ ہے جس کی بنا پر بچے گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کو نہیں سمجھ پاتے۔اکثر ہم اپنے بچوں کی باتوں کو غور سے نہیں سنتے ان کی باتوں پر غور نہ کرنے سے برائی جنم لیتی ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا پر بے تکے ڈرامے چلائے جا رھے ہیں۔ جس سے بےراہ روی بڑھ رھی ہے ہم حقیقت سے دور ہوکر صرف خوابوں کی دنیا تک محدود ہوگے ہیں۔ جب آپ ڈراموں کواخلاقی اقدار سے نکال کر عشق ومحبت اور خاندانی سیاستوں تک محدود کر دیں گے جب آپ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں اپنی جان چھڑوانے کے لیے موبائیل تھاما دیں گے اور ان پر نظر نہیں رکھیں گے تو پھر آپ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بےراہروی کی شکایت نہیں کرسکتے۔ دین سے دوری بھی اس بے چینی کا ایک سبب ہے۔ پچھلے دور اس لیے بہتر تھے کہ اس وقت ٹیکنالوجی کا غلط استعمال نہیں تھا۔ اس وقت اخلاقی اقدار بچوں کو ہر صورت سیکھای جاتی تھیں
میری حاکم وقت سے گزارش ہے ہمارے پاکستان میں جو یہ بے چینی جنم لے چکی ہے۔ ظلم بڑھ رھا ہے جنسی دہشت گردی جیسے واقعات ہمارے ذہنوں اور معاشرے کے افراد کو تباہ کر رہے ہیں اس پر جلد سے جلد کوی سخت قانون مرتب کرکے سخت سزائیں دی جاہیں۔ تاکہ یہ ظلم کی رات ڈھلے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رھے تو یہ معاشرہ بیمار ذہنوں کو جنم دے گا۔ اور ان بیمار ذہنوں کو تقویت دے گا جس کا انجام بہت خوفناک ہو گا۔ اب اس ظلم کی رات کو ڈھل جانا چاہیے۔ خدار !اس بات پر غور کیجے۔ !
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2024 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.