جنسی دہشت گردی اور تلخ حقیقیت

پیر 5 اکتوبر 2020

Maleeha Khan Lodhi

ملیحہ خان لودھی

عائشہ ایک چھوٹی سی معصوم بچی اپنی اماں کو بہت درد سے بتا رھی تھی کہ بابا کے جو دوست گھر آتے ہیں ۔وہ اکثر جب وہ اس کے ساتھ کھلیتے ہیں تو اس کے نرم گالوں پر کاٹتے ہیں۔ ماں نے عایئشہ کی بات بہت بے دھیانی سے سنی اور اسے ڈانٹ دیا کہ وہ ہمیشہ شکایتیں ہی کرتی رہتی ہے۔ مگر ماں ایک لمحے کے لیے بھول گی کہ عاہشہ کے جن معصوم گالوں پر جس بھیڑیے نے کاٹا تھا اس کے دانت اس کی روح کو آج تک چیرتے ہیں۔

آٹھ سال کا زین اس وقت پوچھنے سے قاصر تھا کہ ساتھ والے گھر کے انکل ابرار ہمیشہ اسے میٹھی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ وہ آج تک نہیں سمجھ پایا کہ اس دوپہر جب وہ گیند لینے اس کے گھر گیا تو اس اندھیرے کمرے میں اس ہی کے ساتھ ایسا کیوں ہوا کہ وہ آج تک خواب میں ڈر جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اور اس ایک واقعہ کی وجہ سے وہ اپنے بزرگوں سے بدتمیزی پر اتر آیا
آج قلم ایک ایسے موضوع پر اٹھا بیٹھی ہوں! جیسے لکھتے ہوے میرے ہاتھ کانپ رھے ہیں دل دکھ سے بھر رھا ہے اور آنکھوں میں نمی ہے۔

کیونکہ یہ المیہ ہمارے معاشرے کا ناسور ہے بچوں کا جنسی استحصال عورتوں کے ساتھ جنسی دہشت گردی انسانی اقدار کے منافی ہے پاکستان میں سالانہ ایک ہزار بچے بچیوں کو کچھ بھیڑے اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ عورتوں کی عصمت دری کرکے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ ستمبر 2020 میں بہت سے گینگ ریپ کے کیس سامنے آے لیکن پولیس صرف مقدمات تک الجھ کے رہ گی ہے۔

کوئ خاطر خواہ سزا نہ دینے پر یہ بھیڑے شیر ہوگے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر ایسے مقدمات واپس لے لیے جاتے ہیں۔جس کی بڑی وجہ خاندان کا دباو اور معاشرے کی سفاکی ہے۔ کیونکہ مظلوم بچے اور بچیوں کو شادی تک اور بعد میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ہمارا معاشرہ ایک مجرم کو تو معاف کر دیتا ہے لیکن ایک مظلوم کو کبھی معاف نہیں کرتا۔پاکستان میں اس جرم کی شرح کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ عموما ملزم کا خود بچپن میں جنسی استحصال ہے۔

جسکی وجہ سے وہ بہت دفعہ بدلہ لینے کے لیےیہں روش اختیار کرتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ اس کا عادی ہو کے معاشرے کو ایک زبردست نقصان پہنچتا ہے۔ خبیرپختوانخوہ اور بلوچستان میں اس کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ عموما مزدور بچے زیادہ پیسوں کی لالچ میں آکر اس گندے کام کو اپناتے ہیں۔ پھر وہ اس گناہ سے خود کو روک نہیں پاتے۔ پاکستان میں جہاں عورتوں کا گینگ ریپ ہوتا ہے وہاں چھوٹے بچوں اور نوعمر لڑکے بھی اس ظلم سے بچ نہیں پاتے۔

مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں جو این جی اوز آواز اٹھاتی ہیں ان کے بھی اپنے ذاتی مفادات اس میں شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر این جی اوز اپنی پیبلسیٹی کرنے کے لیے چند خواتین کو ساتھ شامل کرکے چند ایک پلے کارڈ اٹھا کر میڈیا پر آکر اپنا مقصد پورا کرکے چلی جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں جب یہ نعرہ زور پکڑ گیا"میرا جسم میری مرضی"اس وقت بہت سے حمایتی میدان میں نکل آے۔

مگر ان میں سے کسی ایک کی توجہ بھی ریپ اور بالخصوص گینگ ریپ کے مسئلے میں نہیں گئی۔ کسی ایک نے بھی کوشش نہیں کی کہ اس بات کو اجاگر کیا جائےکہ  ہر صورت دفعہ 376 کے قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔ پاکستان میں دفعہ 376 کا قانون بنا ہی اس لیے تھا کہ مجرم کو دو سال سے لے کر دس سال کی سزا دی جاے۔ لیکن بات اب اس قانون کی حد سے تجاوز کر گی ہے۔ جتنی تیزی سے یہ ظلم معاشرے میں پھیل رہا ہے اب اس کی سزا سرعام پھانسی ہے۔

ہمارے ایک اور مسئلہ بھی غور طلب ہے کہ ہم اپنے میڈیا کے ذریعے گھروں اور سکولوں میں بھی اپنے بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دے پا رھے۔ مشرق کی ایک روایت شرم و حیا ہے جو ہم اپنے بچوں کے ساتھ محلوظ خاطر رکھتے ہیں۔ یہ جرنشین گیپ ہے جس کی بنا پر بچے گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کو نہیں سمجھ پاتے۔اکثر ہم اپنے بچوں کی باتوں کو غور سے نہیں سنتے ان کی باتوں پر غور نہ کرنے سے  برائی جنم لیتی ہے۔

ہمارے ہاں میڈیا پر بے تکے ڈرامے چلائے جا رھے ہیں۔ جس سے بےراہ روی بڑھ رھی ہے ہم حقیقت سے دور ہوکر صرف خوابوں کی دنیا تک محدود ہوگے ہیں۔ جب آپ ڈراموں کواخلاقی اقدار سے نکال کر عشق ومحبت اور خاندانی سیاستوں تک محدود کر دیں گے جب آپ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں اپنی جان چھڑوانے کے لیے موبائیل تھاما دیں گے اور ان پر نظر نہیں رکھیں گے تو پھر آپ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بےراہروی کی شکایت نہیں کرسکتے۔

دین سے دوری بھی اس بے چینی کا ایک سبب ہے۔ پچھلے دور اس لیے بہتر تھے کہ اس وقت ٹیکنالوجی کا غلط استعمال نہیں تھا۔ اس وقت اخلاقی اقدار بچوں کو ہر صورت سیکھای جاتی تھیں
میری حاکم وقت سے گزارش ہے ہمارے پاکستان میں جو یہ بے چینی جنم لے چکی ہے۔ ظلم بڑھ رھا ہے جنسی دہشت گردی جیسے واقعات ہمارے ذہنوں اور معاشرے کے افراد کو تباہ کر رہے ہیں اس پر جلد سے جلد کوی سخت قانون مرتب کرکے سخت سزائیں دی جاہیں۔ تاکہ یہ ظلم کی رات ڈھلے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رھے تو یہ معاشرہ بیمار ذہنوں کو جنم دے گا۔ اور ان بیمار ذہنوں کو تقویت دے گا جس کا انجام بہت خوفناک ہو گا۔ اب اس ظلم کی رات کو ڈھل جانا چاہیے۔ خدار !اس بات پر غور کیجے۔ !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :