میرے شہر کی عورت

منگل 23 مارچ 2021

Marryam Malik

مریم ملک

آج کل کے دؤر میں جہاں ہمارے پاکستان کی خواتین آزادی کے   پیچھے بھاگ رہی ہیں ، یہاں میں اپنے شہر کی چند خواتین کے بارے میں بتانا چہتی ہوں۔  میرا تعلق پشاور کے ایک چھوٹے سے گاُؤں سے علاقے سے ہے۔ پچھلے دنوں رِشتداروں سے مِلنے کا پروگرام بنا تو ہم  پشاور چلے گۓ۔ جب ہم وہاں پہنچے تب تک رات ہو چُکی تھی۔ دِل کِیا کھڑکی سے باہِر دیکھوں تو میری نگاہوں کی حدود میں رات کے اُس پہر  مُجھے  کوٸ عورت  نظر نہیں آئ۔

مُجھے بہت حیرت  ہوٸ کہ کیا یہاں عورت اتنی  قید ہے۔ بہر ہال  میں گھر پہنچی ، سب کے ساتھ چاۓ پی اور سو گئ۔ جب میں  صبح اُٹھی تو میں دیکھا کہ خواتین باہر شٹل کوق بُرقے میں کہیں جا رہی تھیں۔ چند بازار کی طرف رواں تھیں اور چند غالبن اُستانی تھیں جو اسکول جا رہی تھیں۔

(جاری ہے)

کچھ نے صرف لمبی چادر زیب تن کر رکھی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر مُجھے خُشی اور حیرت کا شدید احساس ہوا۔

ساتھ ہی دِل میں خیال آیا کہ کیوں نا میں اِن سے بات کروں کہ یہ عورتیں آزادی کِس کو سمجھتی ہیں۔  اور کیا یہ عورتں اِس پردے میں خُوش ہیں؟  موقع ملتے ہی مایں  ایک خاتون سے جب یہ سوال کیا تو موجھے جواب میں بتایا گیا کہ چادر اُنکے جسم کے حصہ کی مانِند ہے۔  اُنکو گر میں عزت و وقار سے رکھا جاتا ہے۔ اُن کو زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔  اور اُنکے مرد اُنکے مُحافظ ہیں۔

یہ جان کر مُجھے بہت خوشی ہوٸ اور یقین جانۓ وہ سکون اُن کی آنکھوں میں دیکھا جا سکتا تھا۔ تب میرا دِل کیا کوں نا میں بھی چادر پہن کر دیکھوں کہ کیسا لگتا ہے ۔ وقت ملتے ہی مینے اپنی پھُپی جان سے درخواست کی کہ مُجھے ایک چادر لا دیں۔  اُنہوں نے پہلی فُرصت  میں  مُجھے چادر لا دی اور میں وہ اوڑھ کر اپنے والد صاحب کے ساتھ بازار کی طرف روانا ہوئ۔

بازار میں چلتے وقت اِس  چادر میں مینے خوُد کو بہت محفوظ  اور باَ  اعتماد پایا۔  کوئ بُری نظر مُجھ پر نہیں اُٹھی مُجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ایسا احساس مُجھے آج تک نہیں ہوا تھا۔ میرا دل ہی نہیں کر رہا تھا کہ میں یہ چادر اُتاروں۔ تب مُجھے احساس ہوا کہ قرآن میں پردے کو اتنی اہمیت کیوں دی گئ ہے۔ بیشک اللّہ کا  ہرفیصلہ  ہماری بہتری کے لۓ ہوتا ہے۔

  یہ وقع بیان کرنے کا مقصد میری بہنوں کو اِن خوتین کے طرزِ زندگی سے آگاہ کرنا تھا کہ چائِد یہ سب سُن کر ہم اپنی سوچ کو کُچ بدل سکیں۔ ہمیں یہ ہی نہیں معلوم کہ آزادی کا مطلب کیا ہے۔ پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں آزادی آخر کس چیز سے چاہیے؟ اپنے باپ سے ؟ بھائ سے؟ گھر کے کاموں سے ؟ یہ پھر اپنی سوچ سے؟ میرا یہ ماننا ہے کہ تالی ہمیشہ ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہمارے معشرے میں اگر مرد خراب ہیں تو عورت بھی ٹھیک نہیں ہیں۔

اگر مرد گندی نظر سے ریکھتا ہے تو عورت خود اُکساتی ہیں۔ ایک عورت کو معشرے میں چلنے پھرنے کا سلیقہ ہمارے دیں نے سکھایا ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ میرے شہر کی عورت اُس سلیقے پر عمل پیرا ہیں اور مینے مہحسوس بھی کیا کہ پشاور میں ریپ اور طلاق کا ریشو باقی صوبوں کی نصبت کم ہے۔  میرا یہ ماننا ہے کہ اگر عورت ٹھیک سے رہے گی تو مرد بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ بات مرد یہ عورت کی نہیں ہے بات بس اتنی ہے کہ ہم اپنا طرزِ زندگی دین سے الگ کرچُکے ہیں دین کو بھول چُکے ہیں پردہ قید نہیں عورت کا سب سے بڑا محافض ہے۔ اپنی تہریر کے اختتام پر ایک شیر کہنا چاہوں گی کہ۔
عورت پر حیا کی چادر ایسے جچتی ہے
جیسے  قرآن پاک پر غلاف

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :