جلدی شادی کے مسائل

بدھ 18 نومبر 2020

Mehreen Mansoor

مہرین منصور

آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں انسان چاند پر زندگی کی کھوج میں ہے. وہی اس دنیا میں ایسے پسماندہ حال ممالک بھی موجود ہیں جہاں پر لوگ آج بھی زندگی گزارنے کے سلیقے سے ناواقف ہیں.
بہرحال موضوع گفتگو نوعمر بچوں کی شادی ہے۔
یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کم عمری کی شادیاں کروائے جانے پر پوری دنیا میں چھٹے نمبر پر آتا ہے. جہاں %21 فیصد لڑکیوں کی شادی ان کے قانونی طور پر بالغ یعنی ''اٹھارہ سال'' کے ہونے سے قبل ہی کروا دی جاتی ہے
لیبرلز کے مطابق یہ رواج مرد اور عورت کو برابر تسلیم نہ کرنے کے بناء پر بنائے گئے ہیں۔

خواہ میں خود اس نظریے کی حمایت نہیں کرتی
کیونکہ اسلامی نظریئے سے دیکھا جائے تو ہمارے مذہب میں بیٹیوں کے نکاح میں جلدی کی تاکید کی گئی ہے کہ ''اپنی بیٹیوں کے نکاح کرنے میں دیر نہ کرو''اوران کے بالغ ہونے پر ان کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ اور ان کے نکاح کرنے سے قبل ان کی مرضی اور اجازت طلب کرو۔

(جاری ہے)

جیسے کہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب حضرت علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سیّدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کے رشتے کی درخواست کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''انشاء اللہ'' اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سے ان کی رضامندی معلوم کی اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا فیصلہ کیا
تو اس مثال سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ بیٹیوں کے نکاح میں انکی اجازت لینے کا درس دین اسلام نے دیا ہے
 یعنی ہمارا مذہب بھی ہمیں یہی سیکھاتا ہے کہ دیکھ بھال کر بیٹی کے بالغ ہو جانے پر اس کی شادی کر دی جائے
لیکن آ ج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو معاشرتی اعتبار سے کم پڑھے لکھے اور مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں لیکن اپنے ذاتی مفاد اور لالچ کے لیے دین اسلام کا نام استعمال کر کے اپنی کمسن اور نوعمر بچیوں کی شادیاں اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے کسی عمررسیدہ امیر شخص سے کروا دیتے ہیں جس کے باعث ان کم عمر بچیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
مسائل۔


یوں تو نوعمری کی شادی کے کئی مسائل ہوتے ہیں لیکن یہاں چند ایک درج ذیل ہیں
 جیسے کہ تعلیم کا چھوٹ جانا کم عمری میں, بچوں کی پیدائش اور ان کی ذمہ داری
گھریلو مسائل گھریلو امور خانہ داری خاوند کا عمر میں بڑا ہونے کے باعث ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا یہ تمام مسائل شامل ہیں
 جس عمر میں بچوں کی ذہنی نشونما کرنی چاہیے اس عمر میں کم سن بچیوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے جس پر برائے نام ہی ہمارے ملک میں کوئی قانونی کاروائی کی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نسلیں تیار کرتی ہے لیکن جب محض سات آٹھ سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی جائے تو وہ بھلا کیا اولاد کی تربیت کرے گی بعض دفعہ بنا وقفے کے یکے بعد دیگرے بچے کی پیدائیش پر کم عمر ہونے کے باعث کئی لڑکیاں زندگی کی بازی بھی ہار جاتی ہیں جسے عام طور پر دیہات میں بالکل معمولی بات سمجھا جاتا ہے یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے ہمارے معاشرے کی۔

صد افسوس کہ ہم خود بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ شہری ہونے کی حیثیت سے اپنے دیہاتی اور شہری بھائیوں اور بہنوں کی اصلاح کریں. انہیں اتنی سوجھ بوجھ دیں کہ وہ اپنی معصوم بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر کسی قابل بنائیں نہ کہ کم عمری میں ان کی شادی کر کے ان کی زندگی کو تباہ کر دیں۔ بات تو چھوٹی سی ہے مگر سوچ بڑی کیجئے. کیونکہ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے پھر وہ معاشراہ نہیں چلتا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :