کشمیر میں روشن پاکستان

منگل 9 مارچ 2021

Mian Habib

میاں حبیب

آنکھ کے مشاہدے کا کوئی نعم البدل نہیں آپ ہزار ڈاکومنٹری دیکھ لیں سفر نامے پڑھ لیں کہانیاں سن لیں  جو آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا کوئی جواب ہی نہیں کیونکہ ہر بندے کے پرکھنے اور مشاہدہ کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے کسی کے نزدیک ایک چیز بہت اہم ہوتی اور وہ اس میں کھو جاتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور وہ اسے نظرانداز کر کے آگے نکل جاتا ہے کسی سرسبز پہاڑ اچھے لگتے ہیں تو کسی کو ریگستان کوئی ندی نالوں آبشاروں کا دلداہ ہے تو کوئی پانی سے کھیلنے کو بے تاب رہتا ہے کوئی یاروں دوستوں کی محفل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو کوئی تنہائی میں عافیت سمجھتا ہے میں نے دنیا کے 13 ممالک دیکھے ہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے قدرت نے ہر ذرے کو منفرد مقام دیا ہے اصل بات یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ اسے کس طرح سے دیکھتی ہے اس ساری تمہید کو میں کسی اور طرف لے جانا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث اس بات کو یہیں روک کر میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس بار ہماری منزل وادی نیلم تھی اور شریک سفر میڈیا پرسنز تھے ٹور کا اہتمام پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر سلمان ملک نے روڈ اینڈ سٹوری کے ساتھ مل کر کیا تھا مقصد تفریح تھا لیکن یہ تفریحی ٹور کوئی اور شکل اختیار کر گیا دوران سفر بارش نے گھیر لیا اور تفریح کا سارا دن کمروں میں گزر گیا چونکہ صحافیوں کے پاس وقت نہیں ہوتا اگلے دن واپسی تھی ساری رات بارش ہوتی رہی صبح اللہ اللہ کر کے بارش تھمی سارے لوگ ناشتہ پر اکھٹے ہوئے تو وہاں سماجی تنظیم   cyte فاؤنڈیشن کے عبداللہ نے علاقے میں مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی کہانی سنائی تو میں نے سب سے درخواست کی کہ اگر ان بچوں سے ملاقات کر لی جائے تو  یہ منفرد تجربہ ہو گا سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اب احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم ان بچوں سے نہ ملتے تو زندگی کی بہت ساری حقیقتوں کا ادراک نہ ہو پاتا نہ کنٹرول لائن کے ساتھ بسنے والے عظیم محب وطن افراد کی تلخ زندگی کے بارے میں جانچ پاتے نہ ہی افواج پاکستان کے ان شیر جوانوں کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ کس طرح دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں نہ ان بچوں کے بارے پتہ چلتا جو کئی کئی گھنٹے دشوار گزار پہاڑوں سے گزر کر اور دشمن کی گولیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی درسگاہ تک پہنچتے ہیں نہ وہاں کے رہنے والوں، تعلیمی جہاد کرنے والوں کے بارے میں جان پاتے اور نہ ہی کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے جذبات کو محسوس کر پاتے جو روشن پاکستان کی دلیل ہیں آج کل کنٹرول لائن پر فائر بندی پر دونوں طرف سے عمل کیا جارہا ہے لیکن وہاں کے لوگ ہر وقت ناگہانی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارا جس دشمن سے پالا پڑا ہوا ہے وہ انتہائی مکار سازشی اخلاقیات سے عاری اور بے اعتبارہ ہے ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم ہروقت موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ بے شرم دشمن نہ دن دیکھتا ہے نہ رات کسی بھی وقت فائرنگ شروع کر دیتا ہے یہاں ہر وقت جنگ کا سا ماحول ہوتا ہے نہ جانے کس لمحے فائرنگ اور گولہ باری شروع ہو جائے اور کب تک چلتی رہے لیکن ہم تمام تر خطرات کے باوجود میدان جنگ میں زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں ہم گولیوں کی گن گرج میں اپنے کام کاج بھی کرتے ہیں اپنی خوشیاں غمیاں بھی مناتے ہیں وہاں جگہ جگہ گھروں پر عمارتوں پر گولیوں اور بموں کی تباہ کاریوں کے نشان نظر آتے ہیں دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو جس جوانمردی کے ساتھ افواج پاکستان کے جری جوان دشمن کے بارود کا سامنا کر رہے ہیں خدا کی قسم یہ نوکری نہیں یہ ملک کی حفاظت کا جذبہ ہے یہ جہاد ہے یہ ایمان ہے ان فوجی جوانوں کو سلام جو موسم کی سختیوں کے باوجود دشمن کو اوقات میں رکھے ہوئے ہیں جو اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ہم تک گرم ہوا تک نہیں پہنچنے دیتے جو لوگ افواج پاکستان پر تنقید کرتے ہیں انھیں یا ان کے بچوں کو ان مورچوں پر چند گھنٹوں کے لیے بھی بجھوایا جائے تو ان کو نانی یاد آجائے۔

(جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :