آنکھ کے مشاہدے کا کوئی نعم البدل نہیں آپ ہزار ڈاکومنٹری دیکھ لیں سفر نامے پڑھ لیں کہانیاں سن لیں جو آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا کوئی جواب ہی نہیں کیونکہ ہر بندے کے پرکھنے اور مشاہدہ کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے کسی کے نزدیک ایک چیز بہت اہم ہوتی اور وہ اس میں کھو جاتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور وہ اسے نظرانداز کر کے آگے نکل جاتا ہے کسی سرسبز پہاڑ اچھے لگتے ہیں تو کسی کو ریگستان کوئی ندی نالوں آبشاروں کا دلداہ ہے تو کوئی پانی سے کھیلنے کو بے تاب رہتا ہے کوئی یاروں دوستوں کی محفل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو کوئی تنہائی میں عافیت سمجھتا ہے میں نے دنیا کے 13 ممالک دیکھے ہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے قدرت نے ہر ذرے کو منفرد مقام دیا ہے اصل بات یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ اسے کس طرح سے دیکھتی ہے اس ساری تمہید کو میں کسی اور طرف لے جانا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث اس بات کو یہیں روک کر میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس بار ہماری منزل وادی نیلم تھی اور شریک سفر میڈیا پرسنز تھے ٹور کا اہتمام پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر سلمان ملک نے روڈ اینڈ سٹوری کے ساتھ مل کر کیا تھا مقصد تفریح تھا لیکن یہ تفریحی ٹور کوئی اور شکل اختیار کر گیا دوران سفر بارش نے گھیر لیا اور تفریح کا سارا دن کمروں میں گزر گیا چونکہ صحافیوں کے پاس وقت نہیں ہوتا اگلے دن واپسی تھی ساری رات بارش ہوتی رہی صبح اللہ اللہ کر کے بارش تھمی سارے لوگ ناشتہ پر اکھٹے ہوئے تو وہاں سماجی تنظیم cyte فاؤنڈیشن کے عبداللہ نے علاقے میں مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی کہانی سنائی تو میں نے سب سے درخواست کی کہ اگر ان بچوں سے ملاقات کر لی جائے تو یہ منفرد تجربہ ہو گا سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اب احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم ان بچوں سے نہ ملتے تو زندگی کی بہت ساری حقیقتوں کا ادراک نہ ہو پاتا نہ کنٹرول لائن کے ساتھ بسنے والے عظیم محب وطن افراد کی تلخ زندگی کے بارے میں جانچ پاتے نہ ہی افواج پاکستان کے ان شیر جوانوں کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ کس طرح دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں نہ ان بچوں کے بارے پتہ چلتا جو کئی کئی گھنٹے دشوار گزار پہاڑوں سے گزر کر اور دشمن کی گولیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی درسگاہ تک پہنچتے ہیں نہ وہاں کے رہنے والوں، تعلیمی جہاد کرنے والوں کے بارے میں جان پاتے اور نہ ہی کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے جذبات کو محسوس کر پاتے جو روشن پاکستان کی دلیل ہیں آج کل کنٹرول لائن پر فائر بندی پر دونوں طرف سے عمل کیا جارہا ہے لیکن وہاں کے لوگ ہر وقت ناگہانی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارا جس دشمن سے پالا پڑا ہوا ہے وہ انتہائی مکار سازشی اخلاقیات سے عاری اور بے اعتبارہ ہے ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم ہروقت موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ بے شرم دشمن نہ دن دیکھتا ہے نہ رات کسی بھی وقت فائرنگ شروع کر دیتا ہے یہاں ہر وقت جنگ کا سا ماحول ہوتا ہے نہ جانے کس لمحے فائرنگ اور گولہ باری شروع ہو جائے اور کب تک چلتی رہے لیکن ہم تمام تر خطرات کے باوجود میدان جنگ میں زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں ہم گولیوں کی گن گرج میں اپنے کام کاج بھی کرتے ہیں اپنی خوشیاں غمیاں بھی مناتے ہیں وہاں جگہ جگہ گھروں پر عمارتوں پر گولیوں اور بموں کی تباہ کاریوں کے نشان نظر آتے ہیں دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو جس جوانمردی کے ساتھ افواج پاکستان کے جری جوان دشمن کے بارود کا سامنا کر رہے ہیں خدا کی قسم یہ نوکری نہیں یہ ملک کی حفاظت کا جذبہ ہے یہ جہاد ہے یہ ایمان ہے ان فوجی جوانوں کو سلام جو موسم کی سختیوں کے باوجود دشمن کو اوقات میں رکھے ہوئے ہیں جو اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ہم تک گرم ہوا تک نہیں پہنچنے دیتے جو لوگ افواج پاکستان پر تنقید کرتے ہیں انھیں یا ان کے بچوں کو ان مورچوں پر چند گھنٹوں کے لیے بھی بجھوایا جائے تو ان کو نانی یاد آجائے۔(جاری ہے)۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔