سیاسی عدم استحکام

بدھ 16 فروری 2022

Mian Habib

میاں حبیب

جب ہر دو ڈھائی سال بعد حکومتیں ختم کر دی جاتی تھیں تو ہمارے سیاستدان کہا کرتے تھے کہ اگر دو تین حکومتیں پانچ سال پورے کر گئیں تو پاکستان میں سیاسی استحکام آ جائے گا 2002 کے بعد تمام حکومتوں نے وقت پورا کیا کسی کو بھی قبل از وقت گھر بھیجنے کی روایت ختم کر دی گئی لیکن ملک میں سیاسی استحکام آنے کی بجائے عدم استحکام اسی طرح برقرار ہے بلکہ افراتفری میں اضافہ ہوا ہے غیر یقینی بڑھ رہی ہے سیاستدانوں نے سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کی بجائے اپنے آپ کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز رکھی بلکہ اپنے عمل سے سیاست کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہمیں یاد ہے میثاقِ جمہوریت سے قبل تک سیاسی نظریات غالب نظر آتے تھے سیاسی ورکر بھی موجود تھے اور متحرک بھی تھے پرائمری سطح تک سیاسی تنظیمیں بھی موجود تھیں اب نہ نظریات رہے نہ تنظیمیں رہیں نہ ورکر رہے البتہ اب مفاد پرست سیاسی عناصر ضرور موجود ہیں جو بوقت ضرورت پیسہ پھینک کر تماشہ دیکھ لیتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ اوپر سے اشارہ ہو گا تو بات بنے گی اب ہر کوئی اشاروں کے پیچھے بھاگتا ہے عوام کے پیچھے کوئی نہیں بھاگتا آج کل پھر سیاسی افراتفری کا دور دورہ ہے لوگ اسی بارے سننا اور جاننا چاہتے ہیں ہر کوئی پوچھ رہا ہے کیا ہونے والا ہے کیا ہونے جا رہا ہے کیا حکومت وقت پورا کر لے گی کیا اپوزیشن عدم اعتماد لا کر حکومت گرا کر کامیاب ہو جائے گی اگلا وزیراعظم کون بنے گا کیا عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن ہوں گے یا یہ ٹرم پوری ہو گی اگر عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو اس کے بعد کی سیاسی صورتحال کیا ہو گی  دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن ملاقاتوں پر ملاقاتیں کیے جا رہی ہے لیکن جن کے خلاف محاذ گرم کیا جا رہا ہے وہ بڑے پرسکون دکھائی دے رہے ہیں جن کے اتحادی توڑے جارہے ہوں جن کے اقتدارِ کو خطرہ ہو ان کی تو نیندیں اڑی ہوتی ہیں مگر عمران خان کو کوئی فکر ہی نہیں انھیں تو چاہیے تھا کہ وہ فوری چوہدری صاحبان کو اعتماد میں لیتے وہ ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کی منت سماجت کر رہے ہوتے لیکن انھوں نے تو فون کر کے بھی نہیں پوچھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے یوں لگتا ہے کہ عمران خان بہت مطمئن ہیں انھیں پتہ ہے کچھ نہیں ہونا یا پھر وہ کہہ رہے ہیں جو ہو گا دیکھی جائے گی ملک میں سیاسی بساط بچھائی جا رہی ہے اور وزیراعظم روس کے دورے کی تیاریاں کر رہیں ہیں اس سے لگتا ہے کچھ نہیں ہونے والا عملاً اس حکومت کے پاس ایک سال رہ گیاہے ایک سال قبل حکومت ختم کرکے ملک میں نئی رسہ کشی کو جنم دینے والی بات ہے تحریک عدم اعتماد اور احتجاج کا مرکز ومحور پنجاب ہے پنجاب میں حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور پہلے مرحلے میں 17اضلاع میں حکومت پنجاب نے  بلدیاتی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ۔

(جاری ہے)

خط میں  پہلے مرحلہ میں 15 مئی کو سترہ اضلاع میں بلدیاتی انتخاب کے انعقاد کی تجویز  پیش کی گئی ہے ۔جن اضلاع میں انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے ان میں ڈی جی خان۔راجن پور۔مظفر گڑھ۔لیہ.خانیوال۔وہاڑی۔بہاولپور۔ساہی وال۔ پاکپتن۔لیہ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ۔گجرات۔سیالکوٹ۔حافظ آ باد۔منڈی بہاولدین۔جہلم۔اٹک  شامل ہیں اگر حکومت ان اضلاع میں الیکشن کروا رہی ہو گی تو کیا اپوزیشن الیکشن لڑے گی یا احتجاج کرے گی اپوزیشن کی حکمت عملی واضح نہیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگلا سیٹ اپ کیا ہو گا کیا پہلے پنجاب میں عدم اعتماد آئے گی یا مرکز میں وزیر اعظم کے پاس عدم اعتماد کی تحریک کو فیس کرنے سے بچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے قبل ہی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیں ایسی صورت میں اپوزیشن چھ ماہ تک عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کر سکے گی میرے خیال میں مرکز میں تحریک عدم اعتماد بہت مشکل کام ہے اس سے قدرے آسان کام پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانا ہے لیکن یہاں عدم اعتماد کی کامیابی کی کنجی چوہدری پرویز الٰہی کے پاس ہے ایک تو وہ خود سپیکر ہیں اور دوسرا ان کا ارکان اسمبلی سے گہرا تعلق ہے بزدار حکومت کو دوام بخشنے میں بھی ان کا کردار ہے اپوزیشن ان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی پیشکش کر چکی ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے اتنی بار دھوکہ کھا چکے ہیں کہ وہ اب ان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں چوہدری صرف اپوزیشن رہنماؤں کو اپنے در پر بلا کر انجوائے کر رہے ہیں وہ اتنے گہرے سیاستدان ہیں کہ سب کی حاضریاں لگوانے کے باوجود انھوں نے ابھی تک بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ وہ کیا چاہتے ہیں انھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ وہ حکومت کے اتحادی رہنا چاہتے ہیں یا کسی ایڈونچر کا حصہ بننا چاہتے ہیں چوہدری بڑے زیرک سیاستدان ہیں وہ گیلی جگہ پر پاؤں نہیں رکھتے چند دنوں تک اپنی اہمیت جتلانے کے بعد وہ کسی واضح موقف کو سامنے لائیں گے انھیں پتہ ہے کہ ہم نے کھیلنا کیسے ہے اور دوسروں کو کھیلانا کیسے ہے وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو باور کروا چکے ہیں کہ گیم ہمارے ہاتھ میں ہے ملک میں سیاسی چالیں عروج پر ہیں لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر پا رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :