حکومتی اکثریت برقرار کیوں؟

پیر 17 جنوری 2022

Mian Habib

میاں حبیب

 منی بجٹ  پر اپوزیشن  نےمختلف دلیلیں دے کر  ایساماحول بنادیاتھا کہ حکومت منی بجٹ منظور کرانے  میں ناکام ہو جائے گی حکومت اپنی عددی اکثریت کھو چکی ہے ہے ان کو ایوان میں اپنے اتحادیوں  اور اپنے ممبران کی بھی حمایت حاصل نہیں رہی بہت سارے لوگ ان سے ناراض  ہیں اور پھر اراکین اسمبلی نے عوام میں بھی جانا ہے ہے وہ اس بل کی حمایت کرکے عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے لہذا وہ کسی صورت میں  بھی منی بجٹ میں حکومت کو ووٹ نہیں دیں گے ہمیں ان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی ضرورت نہیں یہ خود ہی اعتماد کھونے والے ہیں اور منی بجٹ میں سب واضح ہو جائے گا حکومت بے نقاب ہو جائے گی حالات بھی کچھ ایسے بن رہے تھے  یوں محسوس ہوتا تھا کہ کہ تحریک انصاف کے اندر سے بھی کچھ لوگ ناراض  ہیں اتحادی بھی ناز نخرے دکھا رہے تھے  لیکن نہ جانے حکومت نے کس طرح مینج کیا سارا کچھ بدل گیا اتحادیوں کے گلے شکوے بھی  دور ہو گئے اور اپنے بھی ناراضیوں کے باوجود ووٹ دینے کے لئے پہنچ گئے ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے تھے یہ حکومت اس وقت تک ک منی بجٹ ایوان میں پیش نہیں کرے گی جب تک اسے یقین نہ ہو جائے کہ حکومت نےمنی بجٹ پاس کروانے کا مکمل بندوبست کر کے ہی اسے ایوان میں پیش کیا تھا حکومت  نے منی بجٹ پاس کروا کر نہ صرف اپنی عددی اکثریت ثابت کر دی  ہے بلکہ اپوزیشن کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے معمولی اکثریت سے وجود میں آنے والی حکومت کو متحدہ اپوزیشن تمام تر حربوں کے باوجود ہلانے میں ناکام ہو چکی ہے وہ ہر دفعہ اپنے ورکروں کو امید بندھاتے ہیں کہ بس حکومت ابھی گئی ابھی گئی لیکن اپوزیشن کی مسلسل ناکامیوں کے بعد لوگوں کے یقین مجروح ہو چکے ہیں وہ شیر آیا شیر آیا والی کہانی سمجھ کر اب اپوزیشن کی باتوں پر کان نہیں دھرتے ہمارے کچھ صحافی جو پارٹیوں سے زیادہ حکومت کے جانے کے خواہاں ہیں وہ ایک نئی منطق پیش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے خود منی بجٹ منظور کروایا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان آئے گا حکومت اس کے ردعمل کا سامنا نہیں کر پائے گی اور خود ہی چلی جائے گی دوسرے لفظوں میں دیکھا جائے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہم سے کچھ نہیں بن پا رہا ہمارے معاشرے کی ایک نفسیات یہ بھی ہے کہ مسلسل ناکامیوں کے بعد لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے بس کی بات نہیں یہ ہوا میں باتیں کر رہے ہیں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی یعنی کہ ان کی دال نہیں گل رہی یہ تاثر نہ صرف اپوزیشن کے موثر ہونے میں رکاوٹ ہے بلکہ آئیندہ کے لیے بھی ان کا تاثر کچھ اچھا نہیں بن رہا دراصل اپوزیشن کی ساری جماعتیں اپنے اپنے داو پر لگی ہوئی ہیں ہر جماعت انفرادی طور پر اپنی ایڈجسٹمنٹ چاہ رہی ہے اور اس کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو اپوزیشن کوئی موثر احتجاج کر پا رہی ہے نہ کوئی تحریک چلا پا رہی ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی جرات کر پا رہی ہے ہر جماعت اگلے انتخابات پر نظریں لگائے بیٹھی ہے اور چاہتی ہے کہ اگلے سیٹ اپ میں کہیں کوئی کردار مل جائے اپوزیشن کی جماعتیں اپنے ورکروں کو حوصلہ دینے کے لیے دھونی دکھائے بیٹھی ہیں لیکن مچ مچانے کی پوزیشن میں کوئی نہیں عجیب اتفاق ہے کہ نہ حکومت کھل کر کھیل رہی اور نہ ہی اپوزیشن کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر پا رہی ہے ایسے لگتا ہے جیسے سارے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں ہر کوئی سجی دکھا کر کھبی مارنے کے چکروں میں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں ہے اور اس کے لیے اپنی راہ ہموار کر رہا ہے کوئی براہ راست موٹر وے سے اسلام آباد جانا چاہتا ہے تو کوئی جی ٹی روڈ پر اکتفا کیے ہوئے ہے کوئی پیرا شوٹ سے لینڈ کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی بائی ائیر لینڈنگ کے چکروں میں ہے پکڈنڈیوں کا انتخاب کسی کی چوائس نہیں اگر ایسا ہی کرنا ہے تو سارے مل بیٹھ کر بانٹ لو یا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ سارے مل بیٹھ کر ایک خاص وقت تک ایسا سیٹ اپ بنا لیں جس میں سب کی نمائندگی ہو اور بنیادی چیزیں درست کرنے کا ٹارگٹ طے کر لیں اس کے بعد سب اپنا اپنا زور لگا لیں جس کو عوام بہتر سمجھیں اس کا انتخاب کر لیں لیکن موجودہ حالات میں ہم سیاسی سماجی اور معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں آخر کار یہ ہماری جھوٹی انائیں ہمیں کہاں لے جائیں گی ہم اپنے مفادات کے لیے کس کس ملکی مفاد کو قربان کرتے جائیں گے نہ جانے ہماری لیڈر شپ میں کب قومی مفاد کی لو جاگے گی کب ہم اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے سوچیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :