صدارتی نظام کا شور کیوں؟

پیر 24 جنوری 2022

Mian Habib

میاں حبیب

پاکستان میں بھیڑ چال عام ہے ہے جو جس طرف کو منہ اٹھاتا ہے  سارے لوگ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اس وقت  صدارتی نظام کی گونج عروج پر ہے ہر کوئی  صدارتی نظام کے نفاذ کی بات کر رہا ہے اس کی خوبیاں خامیاں گنوائی جا رہی ہیں یہ نہیں سوچا جا رہا کیا اس کا نفاذ ممکن بھی ہے نظام کی تبدیلی کس طرح ممکن ہے اس کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے گا اس طرح تھوڑی ہے کہ کسی نے خواب دیکھ لیا اور صبح اٹھ کر سب کچھ الٹ پلٹ دیا اس کا ایک طریقہ کار ہے اور نظام کی تبدیلی اتنا آسان کام نہیں کئی لوگ اس نظام کو بدلتے بدلتے اگلے جہاں چلے گئے لیکن ہر ایک کو اسی نظام کے تحت آ گے بڑھنا پڑا آئین پاکستان  میں ملک کو چلانے کے لیے جمہوری پارلیمانی نظام واضح کیا گیا ہے اور اس کے مطابق امور مملکت کو چلایا جا رہا ہے ایک بنیادی بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا میں کوئی نظام اچھا یا برا نہیں ہوتا اصل میں نظام چلانے والے کی نیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کو کس طرح سے چلایا جا رہا ہے دنیا کے کئی ممالک میں میں بادشاہت قائم ہے ہے لیکن وہ بادشاہت بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے عوام کو ڈیلیور کر رہی ہے اور اپنے شہریوں کو مطمئن کیے ہوئے ہے اسی طرح سے کئی ممالک میں  صدارتی نظام ہے کئی ممالک میں مختلف قسم کے کے جمہوری نظام ہیں  کہیں متناسب نمائندگی  ہے اور کہیں  اور طرح کے سسٹم  کام کر رہے  ہیں بے شمار جگہوں پر  مختلف قسم کے نظام بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہیےہیں  اور وہاں کے عوام  بھی مطمئن ہیں اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں  کہ جو نظام ایک جگہ پر کامیاب ہے وہ دوسری جگہ پر بھی اسی طریقے سے کامیاب ہو دنیا کے مختلف خطوں میں میں رسم و رواج اور معاملات زندگی  مختلف  ہیں اس لیے وہاں کے لوگ  لوگ اپنی گنجائش کے مطابق اپنے لوکل حالات کے مطابق اپناایک نظام وضع کر سکتے  ہیں دراصل کسی بھی نظام کا تسلسل اور عملدرآمد کروانے والے لوگوں کی نیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ہمارے ہاں شخصیات کا بڑا عمل دخل رہا ہے ہر حکمران نے اپنے آپ کو سسٹم کے تابع رکھنے کی بجائے سسٹم کو اپنے تابع بنانے کی کوشش کی ہے سسٹم میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بھی سسٹم نہیں پنپ پایا اوپر سے جو سسٹم بنا اس میں اتنی آلٹریشن کی گئی کہ اس کی اصل روح ہی ختم کر دی گئی ہمارے ہاں اعتدال کی بھی کمی ہے ہم نے معاملات کو اعتدال کے ساتھ چلانے کی بجائے اور اپنی خواہشات کو دوام بخشنے کے لیے انتہا پسندی سے کام لیا اب معاملات اس نہج پر آ پہنچے ہیں کہ اب لوگ سسٹم پر اعتبار ہی نہیں کرتے ہر ایک نے کام نکلوانے کے لیے اپنے سسٹم وضع کر لیے ہیں پارلیمانی جمہوری نظام میں بڑی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں بااثر لوگوں نے نظام ہائی جیک کر لیا ہوا ہے عام آدمی کی اس میں شنوائی نہیں ہو رہی ملک میں پارلیمانی قبضہ گروپوں کی اجارہ داری ہے ہر رکن قومی وصوبائی اسمبلی نے اپنے اپنے علاقوں میں تسلط قائم کر رکھا ہے اور ان کا تسلط توڑنا کوئی آسان کام نہیں تبدیلی کے لیے یا تو ان کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں یا پھر اس سے بڑا قبضہ گروپ میدان میں اتارا جاتا ہے حقیقت پسندی کا جائزہ لیا جائے  تو موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام  مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے  اور پاکستان کو ویسے بھی یہ نظام سوٹ نہیں کرتا پاکستان میں متناسب نمائندگی یا صدارتی نظام کی طرف جایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مختلف نظاموں کے خاکے متعارف کروائے جائیں ہر سطح پر اس پر بحث مباحثے کروائے جائیں مسائل کا نئے نظاموں میں حل وضع کیا جائے اس پر پھر قوم کی رائے لی جائے قوم کی رائے لینے کا بہترین طریقہ ریفرنڈم ہے یا آئیندہ ہونے والے انتخابات میں یہ بتایا جائے کہ آنے والی اسمبلی کے ارکان کو آپ مینڈیٹ دے کر بھیج رہے ہیں انھوں نے آئین تبدیل کرنا ہے فی الحال جو صدارتی نظام کا ڈول ڈالا جا رہا ہے یہ صرف ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں یہ لوگوں کی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کوئی شوشہ چھوڑا گیا ہو یا لوگوں کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروانا مقصود ہو لیکن اس طرح سوشل میڈیا پر بحث کروا کر یا چند اینکروں کے ذریعے پروگراموں میں بات کروا کر نظام نہیں بدلا جا سکتا نظام کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار ہے پہلے اسے فالو کیا جائے پھر اس پر بات کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :