سو سے زیادہ جمہور یتوں کو سزائے موت

بدھ 27 مئی 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

۱۶ مئی کو جمہوری طور پر منتخب سابق صدر مرسی اور سو سے زیادہ جمہوری قائدین کو فرعونی صفت پر عمل کرتے ہوئے مصری یرغمال عدالت نے موت کی سزا سنا دی ہے۔ صابق صدر مرسی کا قصور یہ ہے کہ اس نے صدر منتخب ہونے کے بعد غزہ میں محصور فلسطینیوں پر بند کیا گیا رفح کا پھاٹک کھولا تھا۔ڈکٹیٹر سیسی نے اقتدار میں آ کر یہ رستہ پھر بند کر دیا ہے۔ڈاکٹر مرسی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔

اس نے ۱۹۸۲ء میں ا نجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مصر کی فرعونی عدالت کا فیصلہ انسانی جمہوری دور کی منفرد سزا ہے۔ سزا یافتہ تمام لوگ جمہوریت پر یقین رکھنے والے جمہوریت پسند لو گ ہیں ۶۰ سال کی ڈکٹیٹر شب کو جمہوریت میں بدلنے والوں کو سزا دلوانے والے ڈکٹیٹر مغربی/ امریکی پٹھو حکمران سیسی ہیں۔

(جاری ہے)

سزا یافتہ جمہوریت پسند وں اور مصر کی عوام نے سابق صدر مرسی کو جمہوری طور پر مصر کا صدر منتخب کیا تھا۔

اس طرح ہمارے نکتہ نظر کے مطابق سو سے زیادہ جمہوریت پسند قائدین کو نہیں یہ تو سو سے زیادہ جمہورتوں کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ اس موقعہ پر ہمیں ایک زندہ ضمیر انسان ،امریکی دانش ور کا بیان یاد آ رہا ہے جو اس نے مظلومہ امت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت کے فیصلہ ۸۶ سالہ قید کے وقت دیا تھا۔ عدالت کے یہودی جج نے غیر منصفانہ اور امریکی تاریخ کا منفرد فیصلہ دیا تھاتو امریکی دانشور نے کہا تھا یہ سزا ڈکٹر عافیہ صدیقی کو نہیں دی گئی بلکہ یہ سزا اسلام کو دی گئی ہے۔

مصری فرعونی عدالت نے بھی مرسی اور اس کے ساتھیوں کو نہیں اسلام کو سزا دی ہے۔نہ جانے ان لوگوں کی سوچ مفلوج ہو گئی ہے یا اس پر تالے پڑھ گئے ہیں کہ نامناسب سزاؤں سے نظریاتی تحریکیں کبھی رکھی ہیں ۔ اس سے قبل بھی مصر کی عدالتوں نے کئی اخوان لیڈروں کو موت کی سزا سنائیں تھیں مگر اخوان المسلمین ۹۰ سال سے قائم اور ان شا اللہ قائم رہے گی۔ اگر اخوان ا لمسلمون کی شہادتوں، پھانسیوں، قربانیوں ،صعوبتوں اورقید بند کا ذکر کیا جائے تو کچھ اسطرح ہے کہ اخوان المسلمون نظریاتی تنظیم ۱۹۲۸ء میں قائم کی گئی تھی ۔

بیس سال تک اس کے قائد نے مصر اور عرب کے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا۔لوگ اس تنظیم کی طرف جوق در جوق راغب ہونا شروع ہوئے ۔۱۹۴۸ء میں غاصب یہود نے ارضِ فلسطین پر سازش سے قبضہ کیا۔ اس وقت مرشدعام نے اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ عرض مقدس کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے جہاد شروع کیا۔اسی وجہ سے یہود نے اخوان المسلمون کو دنیا میں اپنا دشمن نمبر ون تصور کر لیا۔

اخوان المسلمون کے بانی جناب حسن البنا  کو ۱۲ مئی ۱۹۴۹ء میں یہود کے کہنے پر مصری استعماری حکمرانوں نے شہید کر دیا تھا۔اس کے بعداس تنظیم کی قیادت قاضی حسن الہضیبی کے ہاتھ آئی۔آپ کو بھی۱۹۵۱ء میں قید کر دیا گیا۔کچھ دن کے لیے رہائی ملی۔ ۱۹۵۴ء میں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ان کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔اسی سال ان کو موت کی سزا سنا دی گئی۔

بعد میں موت کی سزا کو عمرقید کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔۱۹۶۱ء میں رہا ہوئے۔ تیسری بار ۱۹۶۵ء میں پھر گرفتار کر لیا گیااور تین سال کی سزا سنائی گئی۔مسلسل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے پیرانہ سالی کی وجہ سے ۱۹۷۳ء وفات پائی۔اخوان المسلمون کی اسلامی غلبہ کی تنظیم میں ایک مجاہد لیڈر سید قطب ۱۹۵۰ء میں شریک ہوئے۔دوسرے قائدین کے ساتھ ۱۹۵۴ء میں گرفتار کر لیے گئے۔

ان کو ۱۵ سال کی قید سنائی گئی۔۱۹۶۶ء میں پھر گرفتار کر لیے گئے اور بلا آخر اسی سال ان کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ ان سے مصر کی حکومت اتنی خائف تھی کی جنازے کے وقت کرفیو لگا دیا گیا تھا لوگوں کو اس عظیم لیڈر کے جنازے میں شریک ہونے سے روکا گیا۔ ایک مسلمان حکومت کے لیے کتنے شرم کا مقام ہے کہ ایک شہری کا جنازہ گھر کی عورتوں نے اُٹھایا اور دفن کیا ۔

اس کے بعد اخوان المسلمون کے متعدد مرشد عام منتخب ہوتے رہے ان میں سے سب نے کم و بیش ۲۰ سے۲۵ سال سے زیادہ قید و بند کی سزائیں کاٹیں۔ ان میں عمر تلمسانی،محمدحامدابو النصر،مصطفی مشہور،محمد مہدی عکف اور آخر میں ڈاکٹر محمد بدیع اخوان المسلمون کے مرشد عام منتخب ہوئے۔ مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کو بھی ۱۰۴ سال کی سزا کے ساتھ موت کی بھی سزا سنائی گئی ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اخوان کے ۱۲۸ قائدین کو بھی موت کی سزا سنائی گئی ہے۔اس میں عالم اسلام کے نامور اور ممتاز عالم دین شیخ یوسف القر ضاوی بھی شامل ہیں جو آج کل قطر میں مقیم ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ مصر کا عدالتی نظام کیسا ہے کیا اس میں فرعون کی روح در آئی ہے کہ ۷۰ سال سے اخوان المسلمون کے لوگوں کو سزاؤں پر سزائیں دے رہے ہیں اور ان کو ذرا بھی آخرت کا خیال نہیں آتا کہ ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ آزاد اور جمہوری دنیا بھی ان کے ہاتھ روک نہیں رہی ہے۔ ڈکٹیٹر سیسی مصر کے منتخب صدر مرسی اور اتنی تعداد میں اخوان کے کارکنوں کو سزا سنا کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اخوان المسلمون جیسی استقامت سے بھری جماعت کو اس کے راستے اور مقصدسے ہٹا سکتے ہیں۔ان کو غلط فہمی ہے کہ اخوان کے مرشد عام اور اس کے منتخب صدر کو راستے سے ہٹا کر کیا وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ہر گز نہیں! نظریاتی تحریکوں اور خاص کر اخوان المسلمون کو اس طرح کے حربوں سے کیا اسلام کے راستے سے نہیں روک سکتے ہیں؟یہ تنظیم عالم اسلام کی سب سے بڑی دعوتی جماعت ہے یہ ۹۰ سال سے مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔

اس کے شاخیں پورے عرب کے اندر موجود ہیں پوری اسلامی دنیا میں اس کے سپورٹرز موجود ہیں ۔ اس نے ہمیشہ عالم اسلام کے مفادات کی حمایت کی ہے۔اخوان المسلمون ہی اسلامی ملکوں کی حقیقی خیرخواہ اور دوست ہے۔ سیکولر اور دوسری غیر اسلامی جماعتیں اپنے اپنے مفادات رکھتی ہیں اور اکثرجماعتیں غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈوں پر کام کرتی ہیں۔ کیا اس سے قبل مصر کے بادشاہ اور امریکی پٹھو ڈکٹیٹرز حکمران جنہوں نے مصر پر ۶۰ سال تک جبر سے حکومت کی ہے اخوان کو اسلام کے راستے سے ہٹا سکیں ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں!اس میں شاہ فاروق،جمال عبدالناصر،انورسادات،اور حسنی مبارک جیسے ظالم حکمران شامل ہیں۔

ڈکٹیٹر سیسی نے جمہوری طور پر منتخب سابق صدر مرسی اور ان کے۱۲۸ جمہوریت پسند لوگوں کو تاریخ کے انوکھے اور فرعونی عدالتی فیصلہ کروا کر سو سے زیادہ جمہوریتوں کو سزائے موت سنا کر اصل میں جمہوریت کو موت کی سزا دلوائی ہے جو جمہوری اور آزاد دنیا کو ہر حالت میں نا منظور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :