
غزوہ فتح مکہ!
پیر 11 مئی 2020

میر افسر امان
(جاری ہے)
کیا مسلمان ملک اور عام مسلمان اس کا شکار نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا مسلمانوں نے اپنے تاریخی دنوں کو بھلا نہیں دیا؟ اسلامی یاد گار دنوں میں ایک دن ”غزوہ فتح مکہ“ کا دن بھی ہے ۔ مغرب کے ایک بڑے محقق نے لکھا تھا کہ ” بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا ،مگر بدر کے بعد وہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا“ یعنی ریاست کا مذہب بن گیا تھایا یوں بھی کہا جا سکتا ہے اسلامی جمہوریہ بن گیا تھا جس میں سب کے حقوق برابر تھے ۔ شرک کاخاتمہ کر دیا گیا تھا۔جس میں گورے کو کالے پر اور عرب کو عجم پر، سرداروں کوعوام پر، حاکم کو محکوم پر کو ئی فضلیت حاصل نہیں تھی۔ فضیلت تھی تو اس کی تھی، جو زیادہ متقی و پرہیزگار تھا۔ جو ریاست کے قانون کا پابند تھا۔ عوام کو حقوق و فرائض کی تعلیم دی گئی تھی۔ عوام ریاست کے وفادار تھے۔ ریاست عوام کے حقوق کی نگہبان تھی۔ عورتوں کے حقوق رسول اللہ نے خود متعین کر دیئے تھے۔ غزوہ فتح مکہ پر ایک تاریخی بیان دیتے ہوئے ایک اسلامی مفکر امام ا بنِ قیم نے کہا تھا” یہ دن فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو، اپنے رسول کو،اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزّت بخشی اور اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو، جسے دنیا والوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ہے، کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور اس کی عزّت کی طنابین جوزاء کے شانوں پر تن گئیں،اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ اور چمک دمک سے جگمگا اُٹھا“(الرّحیق ا لمختوم)
مسلمانوں کو یہودی کنٹرولڈابلاغ سے کنارہ کش ہو کر اپنے تاریخی دنوں کو یاد رکھناچاہیے۔ ان کو منانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے ہی شجر سے وابستہ رہ کر بہار کی امید کرنی چاہیے۔ وہ قومیں ختم ہو جاتیں ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول جاتی ہیں۔ کھیل تماشوں میں غرق ہو جاتی ہیں۔غزوہ فتح مکہ کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ جو معاہدہ طے ہوا تھا اس میں جو قبیلہ رسول اللہ کے ساتھ شامل ہوا اور جو قریش کے ساتھ شامل ہوئے تھے ان کی ایک دوسرے کے خلاف کاروائی کو رسولاللہ یا قریش کے خلاف کاروائی تصور کی جائے گی۔ قریش نے اس معاہدے کی خلاف وردی کرتے ہوئے رسول اللہ کے ساتھی قبیلہ سے لڑائی کی تھی جس کی شکایت لے کر اس قبیلے کے لوگ رسول اللہ کے پاس مدینہ میں گئے تھے۔ قریش کو بھی جب اپنی غلطی کا احساس ہواتو ابو سفیان کو معاہدے کی توثیق کے لیے مدینہ رسول اللہ کے پاس بھیجا مگر وہ ناکام ہو کر لوٹا۔طبرانی بیان کرتے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد رسولاللہ نے تیاری شرو ع کر دی تھی۔۱۰ رمضان کو رسولاللہ نے مدینہ کا رخ کیا۔آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ تھے۔ جب اسلامی لشکر جحفہ کے مقام پرپہنچا تو حضرت عباس رسولاللہ سے ملے اور ایمان لے آئے۔پھر ابوسفیان بھی رسولاللہ سے ملنے آئے تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ اس پر حضرت علی نے ابوسفیان سے کہا کہ جاؤ اور رسولاللہ سے مل کر وہی بات کہو جو حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف سے کہی تھی۔ اس پرجواب میں رسول اللہ نے وہی کہا جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔ اس پر ابو سفیان نے چند اشعار میں رسول اللہ کی تعریف کی ۔ جب معاملہ دوستی میں بدل گیا توحضرت عباس نے رسولاللہ سے کہا کہ ابو سفیان اعزاز پسند ہے اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کر لے اسے امان، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے۔اسی صبح۱۷/ رمضان ۸ ء ھ کو رسولاللہ مرا لظہران سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ۱۹/ روز مکہ میں قیام کیا۔ مراظہران میں قیام کے دوران رسولاللہ نے صحابہ کو ہر قبیلہ رات کو علیحدہ علیحدہ آگ روشن کرنے کا کہا تاکہ مکہ والے اس سے خوف زدہ ہو جائیں۔ اس کے بعد اسلامی لشکر مکہ میں کئی سمتوں سے میں داخل ہوئے۔ابو سفیان نے اپنی قوم کو کہا کہ رسولاللہ بہت بڑا لشکر لے کر آئے ہیں آپ ان کے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اسلامی لشکر اچانک قریش کے سر پر آن پہنچا۔ پھر ابوسفیان نے وہی اعلان کیا جس پر رسولاللہ نے اس سے وعدہ کیا تھا۔ رسول کے ہاتھ میں ایک کمان تھی۔ بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر تین سو ساٹھ بُت تھے آپ اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے”حق آ گیا اور باطل چلا گیا۔ باطل جانے والی چیز ہے“(۱۷:۱۸)” حق آ گیا اور باطل کی چلت پھرت ختم ہو گئی“(۳۴:۴۹) قریش کو مخاطب کر کے کہا ۔ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔انہوں نے کہا آپ کریم بھائی ہیں ۔ اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپ نے کہا میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی ” کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو“
قارئین! یہ تھا رسول اللہ کا برتاؤ قریش کے ساتھ! کیا آج مسلمان اس سنت پر عمل کر کے ایک دوسرے کو معاف نہیں کر سکتے؟ کیا آج مسلمانوں میں ایسی رواداری کی ضرورت نہیں؟ اللہ ہمیں اپنے پیارے رسول کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج دنیا کررونا وائرس کی زد میں ہے۔ ساری میں معیشت کا پیہ روکا ہوا ہے۔خوف کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند ہو گئے ہیں۔ روزنہ کی بنیاد پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ حکمرانوں نے چھوت کی بیماری کی وجہ سے مساجد، حتہ کہ خانہ کعبہ اور مسجدنبوی میں نماز پڑھنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اللہ رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمانوں اور ساری انسانیت کو اس عذاب سے نجات دے۔آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.